6 روز پہ مشتمل 1967 میں عرب اور اسرائیل کے مابین ہونے والی یہ تیسری عرب اسرائیلی جنگ مختصر ضرور تھی لیکن انتہائی خونی جنگ تھی جس میں ایک طرف اردن، سیریا اور مصر تھے تو دوسری جانب اسرائیل اور اس کے بین الاقوامی اتحادی۔
سفارتی بات چیت کے ناکامی اور تیسری عرب اسرائیلی جنگ۔
سفارتی بات چیت کی ناکامی اور اسرائیل کے روز مرہ بڑھتی جارحیت کے نتیجے میں اسرائیلی مسلح افواج نے جنگ بپا ہونے کے خدشہ پیدا ہوتے ہی مصر اور اس کے اتحادیوں کے ہوائی افواج کو چند ہی حملوں میں کچل کے رکھ دیا تھا۔اور ایک کامیاب ہوائی حملے کے بعد اسرائیل نے انتہائی منظم زمینی اٹیک کر کے جزیرے نما سینا اور غزہ پٹی کو مصر سے، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کو اردن، اور گولان کی پہاڑیوں کو سیریا سے چھین لیا تھا۔
صہیونی فوج کی مکمل بالادستی کی داستان۔
اور پھر عہد حاضر کی یہ مختصر ترین جنگ، عرب ریاستوں کی شکست اور ناکامی، اور صہیونی فوج کی مکمل بالادستی، اور اقوام متحدہ کی دخل اندازی کے بعد اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ کا پیش خیمہ اور اس کے وجوہات
سن 1967 میں ہونے والی اس تیسری عرب اسرائیلی جنگ کو عرب ریاستوں اور صہیونی حکومت کے مابین ہونے والی کوئی نئی جنگ نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اس جنگ کے پیچھے دہائیوں سے چلنے والی سیاسی اور عسکری کشمکش اور رسہ کشی ہے۔
سن 1948 اور پہلی بڑی عرب اسرائیلی جنگ
سن 1948 میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد عرب ریاستوں کے ایک متحدہ محاذ نے اس ناجائز صہیونی ریاست کے خلاف ایک غیر منظم اور ناکام حملے کی کوشش کی تھی جس کو پہلی عرب اسرائیلی جنگ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
سن 1956 میں ہونے والا سوئیس بحران
اسی ضمن میں دوسری جنگ جس میں ایک طرف مصر کی قیادت میں دوسری عرب ریاستیں تھیں تو دوسری جانب اسرائیل کی سرپرستی میں فرانس اور برطانیہ جیسے بڑے یورپی ممالک تھے۔ اس جنگ کو سوئس بحران یا دوسری عرب اسرائیلی جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس دوسری جنگ کا پیش خیمہ یہ تھا کہ جمال عبدالناصر نے مغربی قوتوں اور استعماری طاقتوں کے خلاف جاتے ہوئے سوئیس کینال کا نیشنلائزیشن کر دیا تھا اور سوئیس کینال کو مصری حکومت کے قبضے میں لے لیا تھا اس کے رد عمل میں فرانس برطانیہ اور اسرائیل کی مسلح افواج نے مصر کے خلاف ایک منظم لیکن ناکام حملہ کر کے سوئس کنال کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ اور سن 1956 سے سن 1967 کے درمیان کا وقفہ
تیسری عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے سن 1956 سے لے کر 1967 تک عرب ریاستوں میں اور صہیونی حکومت کے درمیان ایک طرح کا غیر متصادم اور پرسکون ماحول پیدا ہو گیا تھا لیکن سیاسی صورتحال دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی جا رہے تھی۔ ایک طرف عرب ریاستوں کے قائدین اور بادشاہوں کو انکی مسلسل ہونے والی عسکری اور سیاسی ناکامیوں نے بے چین و بے قرار کر دیا تھا تو دوسری جانب ہزاروں لاکھوں فلسطینی مہاجرین جو 1948 کی جنگ کے نتیجے میں عرب ممالک کے مختلف خطوں میں پھیل چکے تھے انہوں نے اس بے چینی میں اضافہ کر دیا تھا۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے مضبوط عرب ریاستیں اور اسرائیلی بے چینی۔
یہ تو عربوں کا حال تھا وہیں تیسری عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے اسرائیلی سیاستدانوں اور اسرائیلی مفکروں کا یہ ماننا تھا کہ مصر اور دوسری مضبوط عرب ریاستیں صہیونی حکومت کے لیے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہیں جن سے نپٹنا اور نبرد آزما ہونا اور ان کو حاشیے پہ پہنچا دینا اسرائیل اور ان کے مغربی حلیفوں کی ذمہ داری ہے۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ اور اس کے فوری وجوہات
وہ چنگاری جس نے تیسری عرب اسرائیلی جنگی شعلے میں آگ بھڑکانے کا کام کیا تھا وہ تھا سرحدوں پہ ہونے والا تنازعات کا ایک سلسلہ۔ 1967 آتے آتے سیریا کے مدد یافتہ فلسطینی گوریلا لڑاکؤوں اور جنگجوؤں نے مقبوضہ فلسطین پر حملے کرنا شروع کر دیا تھا دوسری جانب اسرائیلی مسلح افواج نے فلسطینی سرزمین پر حملوں کا اور قبضوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا اور فلسطینی نوجوانوں بوڑھوں اور عورتوں کی جانوں کا کھلواڑ بھی روزمرہ کی عادت بن چکی تھی۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ اور سیریا و اسرائیل کے درمیان ابتدائی جھڑپیں
اپریل 1967 میں سیریا اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تیز ہوتی چلی گئیں اور انہی جھڑوں کے درمیان سیریا کے 6 لڑاکو جہاز تباہ ہو گئے۔
ان ہلکی پھلکی جھڑپوں کے بعد سوویت اتحاد نے مصر کو یہ خبر دی کہ اسرائیل اپنی مسلح افواج کو شمالی سرحد کی طرف بڑھا رہا ہے تاکہ سیریا پر مکمل حملہ کر کے اس پہ قابو پایا جا سکے۔
لیکن سوویت اتحاد کی فراہم کردہ معلومات صحیح نہ ہونے کے باوجود مصری صدر جمال عبدالناصر حرکت میں آگئے اور اپنے سیریائ اتحادی کی کو مدد فراہم کرنے کے لیے جمال عبدالناصر نے مصری مسلح افواج کو صحرائے سینا میں بڑھنے کا حکم دیا جہاں انہوں نے اقوام متحدہ کی امن فوج کو پیچھے ہٹنے پہ مجبور کر دیا جو ایک دہائی سے اسرائیل اور مصر کی سرحدوں کے درمیان حفاظتی پہرے دے رہے تھے۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ اور مشرق وسطی کی کشیدگی میں شدت
جیسے جیسے دن گزرتے گئے جمال عبدالناصر نے اپنے جنگی ساز و سامان کی نمائش اور مظاہرے میں شدت اختیار کرنا شروع کر دیا۔ 22 مارچ کی تاریخ تھی کہ جمال عبدالناصر نے ابنائے تیران سے گزرنے والے اسرائیلی جہاز کا راستہ بند کر دیا۔
ابنائے تیران وہ آبی گزرگاہ ہے جو سرخ سمندر کو خلیج عقبہ سے مربوط کرتی ہے۔اور ابھی ایک ہی ہفتہ گزرا تھا کہ جمال عبدالناصر نے اردن کے بادشاہ حسین کے مل کر دفاعی معاہدہ پہ دستخط کر دی۔
جون 1967 آتے آتے صہیونی حکومت کے لیڈروں نے عرب عسکری تنصیبات پہ ابتدائی حملے کی ووٹنگ کر دی تھی اور دوسری عرب اسرائیلی جنگ کا بگل بجا دیا تھا
جون پانچ 1967 اسرائیل کی دفاعی مسلح افواج نے آپریشن فوکس کے نام سے مصر پر ایک نہایت ہی منظم ہوائی حملہ کیا۔ پانچ جون کی صبح کم و بیش 200 لڑاکو جہاز اسرائیل سے اڑے اور بحر متوسط سے گزرتے ہوئے شمالی جانب سے مصر پر حملہ آور ہو گئے۔
صہیونی مسلح افواج کا اچانک حملہ اور تیسری عرب اسرائیلی جنگ کی شروعات
اسرائیلی فوج نے مصریوں پر ایک اچانک حملہ کر کے ان کے 18 مختلف جنگی ہوائی میدان تباہ کر دیے اور تقریبا 90 فیصد مصری ہوائی فوج اور ہوائی طاقت کو مٹی میں ملا دیا اور پھر دھیرے دھیرے صہیونی فوج نے اپنے حملوں میں اضافہ کیا اور عراق سیریا اور اردن کی فضائی افواج کو بھی شکست فاش دیا۔ پانچ جون کے دن کو ختم ہوتے ہوتے اسرائیلی لڑاکو پائلٹوں نے مڈل ایسٹ یعنی مشرق وسطی کے آسمانوں کو تسخیر کر لیا تھا۔
تیسری عرب اسرائیلی جنگ کا خاتمہ اور اسرائیل کی فتح۔
اس فضائی تسخیر کے باوجود اور اپنی ہوائی طاقت کی فوقیت کے باوجود زمینی جنگ کئی دنوں تک چلتی رہی جس کی شروعات پانچ جون کو ہوئی جس میں اسرائیلی ٹینکوں اور انفینٹری نے صحرائے سینا اور غازہ پٹی کے حدود کو توڑتے ہوئے اندر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔
گر چہ مصری افواج نے شدید مقاومت جاری رکھی لیکن جب فیلڈ مارشل عبدالحکیم عامر نے انہیں ہتھیار ڈالنے یا ریٹریٹ کا حکم دیا تو انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔اور اس ریٹریٹ کے اور سر تسلیم کے خم کے بعد اسرائیلی مسلح افواج نے قتل و خون کا بازار گرم کیا اور اسرائیل نے فتح کا اعلان کر دیا۔