جزیرہ نما عرب ( Arabian Peninsula) یا سرزمین عرب مغربي ایشیا کا وہ جزیرہ نما ہے جو بر اعظم افریقہ کے شمال مشرقی سمت میں واقع ہے۔ یہ تقریباً 3,237,500 مربع کلو میٹر میں پھیلا ہوا ہے اور اپنے حجم میں ہندوستان کے برابر ہے۔ یہ دنیا کا سبسے بڑا جزیرہ نما ہے ۔
جغرافیائی اعتبار سے، جو ممالک اسمیں شامل ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یمن۔ اسکے علاوہ عراق اور اردن کا جنوبی حصہ بھی اس میں شامل ہے۔ ان ممالك میں سب سے بڑا ملک سعودی عرب ہے۔
جزیرہ نما عرب کے حدود
جزیرہ نما عرب (Arabian Peninsula) کے مغربی اور جنوب مغربی حدود سرخ سمندر (Red Sea) سے ملتے ہیں، اور اسکے شمال مشرق میں خلیج فارس (Persian Gulf) اور عمان کی کھاڑی (Gulf of Oman) واقع ہے۔ سرزمین شام (Levant) اور عراق اسکے شمال میں پاۓ جاتے ہیں۔ بحر عرب (Arabian Sea) اور بحر ہند اسکے جنوب مشرق میں واقع ہین۔ تیل اور گیس کے قدرتی ذخائر کے سبب یہ جزیرہ نما متعدد دہائیوں سے خطے کی سیاست میں اور عالمی تجارت میں نہایت ہی غیر معمولی کردار ادا کر رہا ہے۔
عہد معاصر سے قبل خطے کا جغرافیا:
عہد جدید سے قبل یہ خطہ چار اہم جغرافیائی علاقوں میں تقسیم تھا جو مندرجہ ذیل ہیں۔
وسطی حصہ: نجد اور یمامہ۔
جنوبی حصہ: یمن، حضرموت اور عمان ۔
مشرقی حصہ یعنی البحرین یا الحصا
حجاز: اسکے ضمن میں تہامہ اوہ مغربی ساحلی علاقے آتے تھے۔
جزیرہ نما کے چھ ممالک خلیج تعاون تنظیم (Gulf Cooperation Council) کے رکن ہے؛ قطر، متحدہ عرب امارات، عمان، سعودی عرب، کویت اور بحرین۔ مملکت سعودی عرب اس جزیر نما کا سب سے بڑا ملک ہے۔ اور آبادی کے اعتبار سے سعودی عرب اور یمن سب سے نماياں هيں۔
اس خطے کی بڑی اکثریت نسل اور اصل اعتبار سے اپنے آپ كو عرب کہتی ہے۔ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو نسل در نسل پیچھے تک اپنے نسب اور اپنے خاندان کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ یہاں پہ بسنے والے تقریبا تمام کے تمام باشندے عربی زبان بولتے ہیں گرچہ بڑی حد تک ان کے لہجے مختلف ہیں لیکن یہ لہجوں کا اختلاف باہمی افہام و تفہیم میں کبھی بھی رکاوٹ کا سبب نہیں بنا۔

جزیرہ نما عرب میں اسلامي نظريه كي اشاعت:
ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں جب اسلامی عقیدے اور نظریے کی اشاعت اور توسیع کا آغاز ہوا تو زیادہ تر اہل عرب اسلامی تعلیمات کو قبول کر کے دائرۓ اسلام میں داخل ہو گئے۔
اگرچه مقامی سطح پر آج بھی مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات ایک اہم مسئلہ ہیں جیسا کہ بحرین اور یمن میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود اس جزیرے نما کی اور اس کے باشندوں کی جو تاریخی وابستگی اس خطے میں مبعوث ہونے والی بابرکت ذات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہے اس نے نہ صرف ان کو مختلف سطحوں پر تصادم و ٹکراؤ سے محفوظ رکھا، بلکہ سینکڑوں صدیوں تک انہیں متحد رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
جزیرہ نما عرب میں تمدن و ثقافت
یہاں کے تمدن اور ثقافت کا مشاہدہ مختلف شکلوں میں کیا جا سکتا ہے ان شکلوں میں جو اس جزیرے نما عرب کے باشندوں کے نزدیک ایک مشترک وراثت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ وراثت خطوں کو، دریاؤں کو، براعظموں کو عبور کرتی ہوئ ہوئی دنیا کے مختلف خطوں میں آباد مختلف اسلامی معاشروں اور سماجوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
گر چہ بیسویں صدی نے اس خطے میں تبدیلی کی ایک بڑی کروٹ لی اور مغربی ثقافت و تمدن کی آمد کے ساتھ ساتھ اس خطے نے نت نئی ایجادات کا مشاہدہ کرنا شروع کر دیا تھا جس نے اس خطے کے ادب، فنون لطیفہ، رہن سہن، اور ذوق پر نہایت ہی گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے باوجودشعر و شاعری مذہبی اور دینی قوانین مختلف تصورات و ادراکات اور جرات و شجاعت سے منسوب اقدار یہاں کی مٹی اور یہاں کی ثقافت کا ایک جزء لا ینفک ہے۔
جزیرہ نما عرب میں مختلف ریاستوں كا سياسي خاکہ:
جزیر نما عرب کی زیادہ تر ریاستوں کا مشترک سیاسی خاکہ ہے۔ تقریبا تمام کی تمام ریاستوں میں بادشاہت کا نظام ہے۔ بیسویں صدی میں، خصوصی طور پر جنگ عظیم دوم کے بعد، یہاں کی حکومتوں اور ریاستوں نے ایک طرف تدریجی سیاسی تبدیلی کی جانب قدم ضرور بڑھایا ہے اور دوسری طرف معاشی اور سماجی ترقی حاصل کرنے کے لیے تیز رفتاری بھی اختیار کرنے کوشش کی ہے۔
جزیرہ نما عرب میں قدرتي وسائل كي فراواني
گر چہ اس جزیرہ نما میں پائے جانے والے قدرتی وسائل عادلانہ طور پر اس کی ریاستوں میں تقسیم نہیں ہیں کیونکہ وہ ریاستیں جو جنوب اور جنوب مغرب میں واقع ہیں ان کے پاس تیل کی دولت اور ثروت کم سے کم ہے۔ اس کے باوجود مماثل اقتصادی تبدیلیاں ہر معاشرے میں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں
شہر کاری تعلیم اور صحت و طبی وسائل کی طرف زیادہ سے زیادہ رسائی، فکری توسیع اور ساتھ ہی ساتھ خانہ بدوشوں کی آباد کاری نے اس خطے کے تانے بانے کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔
ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب کے مختلف حصے کسی ایک متحدہ حکومت کے اندر متحد ہوئے ہوں مثال کے طور پر سولہویں صدی میں عثمانی سلطنت زیادہ تر ساحلی علاقوں کو فتح کرنے میں کامیاب رہا تھا اس کے باوجود جزیر نما کے داخلی حصے تک اور جنوب مشرق کے حصے تک اس کی رسائی ناممکن تھی۔ اسی طرح انیسویں صدی میں برطانیہ عظمی اور عثمانیوں نے جزیرہ نما کا زیادہ تر حصہ اپنے قبضے میں رکھا لیکن وسطی اور اندرونی حصہ وہ ان کی دسترس سے دور رہا اور اس پر وہاں کے مقامی باشندوں کی یا مقامی امراء کی حکومت رہی۔
ساتویں صدی میں طلوع اسلام کے وقت سے سرزمین عرب کے گہرے تعلق مشرق وسطی میں موجود مختلف ریاستوں سے رہے تجارتی دینی سماجی عسکری اور سیاسی معاملات کے ذریعے۔ عہد حاضر میں جزیر نما عرب کی دنیا کے لیے بڑھتی اہمیت 20 ویں صدی میں ہونے والی تیل کی دریافتوں سے دو بالا ہو گئی ہے اور جس نے خطے کے بین الاقوامی رشتے کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔
مشرق وسطی پر پڑنے والے خارجی اثرات نے اور خارجی اثر و رسوخ نے جزیرہ نما عرب کے باشندوں کو نیسر ہونے والے کے مواقع کے ساتھ ساتھ ان کی مشکلوں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
تمام تر اختلافات پریشانیوں اور تجربوں کے باوجود یہ سرزمین جزیرہ نما عرب اس بات پر قادر ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو اور اپنے سماج کو فکری ثقافتی سماجی سیاسی معاشی اور مختلف قسم کا اتحاد فراہم کر سکے۔