جمال الدین افغانی اور 19ویں صدی کی استعمار مخالف سرگرمیاں

سید جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) 19ويں صدی عیسويں کے عالم اسلام کی وہ نابغہ روزگار، شہرہ آفاق اور انقلابی ہستی ہیں جنہوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک به بانگ دہل مغربی استعماری قوتوں کے خلاف عالم اسلام اور عالم انسانیت کے ہر فرد کو جگانے جھنجوڑنے اور ایک ایسی استعمار مخالف اور ہمہ گیر تحریک کی بنیاد رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس سے آنے والی نسلوں نے دہائیوں تک استفادہ کیا۔ اور اج بھی سید جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) کی استعمار مخالف فکری تحریروں سے مشرقی اقوام اپنے روح اور فکر کو غذا دے رہی ہیں۔

جمال الدین افغانی کی تحریکی طبیعت 

سن 1839 میں پیدا ہونے والے جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) ایک فعال، متحرک، اور سرگرم سیاسی ایکٹیوسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم اسلامی مفکر بھی تھے۔ جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) کا شمار ان عظیم آزادی کے متوالوں میں ہوتا ہے جنہوں نے مشرقی اقوام کو آزادی دلانے کے خاطر عالم اسلام کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور ہر کونے کونے میں پہنچ کر صدائے استقلال بلند کی۔ جمال الدین افغانی کو اسلامی جدیدیت کے عظیم مفکروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف پین اسلامک اتحاد کی سب سے بلند و بالا آواز اٹھانے والوں میں بھی آپ کا شمار سرفہرست ہوتا ہے۔ 

جمال الدین افغانی اور اتحاد کی کاوشیں 

جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنے اس انقلابی اور اتحادی سفر میں کبھی بھی چھوٹے موٹے اختلافات اور فرعی تنازعات میں دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ ان کا مکمل زور اور ان کی مجموعی قوت اس بات پر مرکوز تھی کہ مغربی تسلط و ہیمنت کے خلاف ایک مجموعی اور متحد قوم کو تیار و منظم کیا جا سکے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قاچار ڈائنسٹی کے چوتھے بادشاہ ناصر الدین شاہ قاچار کو قتل کرنے والے میرزا رضا کرمانی کے ساتھ جمال الدین افغانی بھی شریک تھے۔ افغانی کا خیال یہ تھا کہ شاہ ناصر الدین قاچار نے بین الاقوامی قوتوں اور خارجی طاقتوں کو بہت زیادہ امتیازات اور چھوٹ دے رکھی تھی جن میں سرفہرست برطانوی استعماری قوت تھی۔

جمال الدین افغانی کی ابتدائی زندگی اور ان کا گھر وہ خاندان

ایک طرف جہاں جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنی اسلامی اور اصلاحی فکر اور انقلابی تحریک کو لے کر دنیا کے گوشے گوشے میں شہرت پائی وہیں دوسری طرف ان کا اصلی اور آبائی وطن افغانستان ہے یا ایر ان اس میں آج بھی مختلف تاریخ داں اور نقاد مختلف رائے رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک نظریے کے حساب سے جمال الدین افغانی کی پیدائش افغانستان کے اسد آباد شہر میں ہوئی جو کہ قابل کے قریب تھا دوسرا نظریہ جس کو تاریخ داں نکی کیڈی نے پیش کیا ہے اور دوسرے مختلف معاصر تاریخ دانوں اور علماء نے اس کی تائید بھی کی ہے اس کے حساب سے ان کی پیدائش اور نشونما اسد آباد، ایران میں ایک شیعہ خانوادے میں ہوئی۔

جن دانشوروں نے سید جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) کے ایران میں پیدا ہونے اور نشونما پانے کی وکالت کی ہے ان کا ماننا ہے کہ جمال الدین افغانی نے اپنے اپ کو سنی افغانی عالم کے طور پر اس لیے متعارف کرایا تاکہ سنی مسلمانوں میں شہرت اور مقبولیت حاصل کی جا سکے اور شاہ ناصرالدین قاچار کے ظلم اور استبداد سے اپنے کو محفوظ رکھ سکیں۔

جمال الدین افغانی اور ان کے مختلف القاب

جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے کاظمین کا سفر کیا اس کے بعد تہران اور آخر میں عراق میں تعلیم حاصل کی۔ جمال الدین افغانی نے مختلف القاب اختیار کیے تھے جن میں کابلی، اسد آبادی، سادات کنار، حسین اور الرومی وغیرہ شامل ہیں ۔

جمال الدین افغانی کی سیاسی سرگرمیاں

سن 1856 اور 57 میں جب جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) کی عمر 17 یا 18 سال تھی تو انہوں نے برطانوی ہندوستان کا سفر طے کیا اور ہندوستان میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی برس گزارے۔ 1859 میں ایک برطانوی جاسوس نے اس بات کی خبر دی کہ جمال الدین افغانی ایک ممکنہ روسی جاسوس ہیں۔ برطانوی نمائندوں نے اس بات کی بھی خبر دی کہ جمال الدین افغانی وسطی ایشیا کے لوگوں کی طرح کے روایتی لباس کو زیب تن کرتے ہیں اور فارسی عربی اور ترکی زبانوں کو نہایت ہی سلاست اور فصاحت کے ساتھ بولتے ہیں۔

جمال الدین افغانی اور افغانستان 

جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنے ہندوستانی سفر سے فارغ ہونے کے بعد حج کرنے کا فیصلہ کیا اور حج مکمل کرنے کے بعد ایران ہوتے ہوئے افغانستان کا سفر طے کیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے افغانستان میں ایک اجنبی کی طرح زندگی گزاری اور ایرانی فارسی میں گفتگو کری اور مغربی طرز معاش کے ساتھ زندگی گزاری جس میں نہ وہ رمضان کے روزے رکھتے تھے نہ دوسرے اسلامی احکام کی پابندی کرتے تھے۔

 افغانستان پہنچنے کے بعد جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) محمد افضل خان جو کہ سابق امیر دوست محمد خان کے فرزند تھے کہ مشیر بنے اور یہ عہدہ انہوں نے تب قبول کیا جب محمد افضل خان کی شیر علی خان سے تخت تو تاج کو لے کر تنازع چل رہا تھا۔جمال الدین افغانی نے محمد افضل خان کو اس بات پر امادہ کیا کہ وہ اپنے والد کی برطانوی مفاد والی سیاست سے دستبردار ہو جائیں اور روسی حکومت کی تائید کریں لیکن 1868 میں شیر علی خان نے محمد افضل خان کو شکست دی اور جمال الدین افغانی کو افغانستان سے بے دخل کر دیا۔ 

جمال الدین افغانی اور ترکی

افغانستان سے بے دخلی کے بعد جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے ہندوستان ہوتے ہوئے استنبول کا سفر طے کیا استنبول میں ان کی ملاقات وزیراعظم محمد امین علی پاشاہ سے ہوئی اور استنبول یونیورسٹی کے افتتاحی نشست میں جمال الدین افغانی نے ایک انقلابانہ اور مجددانہ خطاب دیا جس میں انہوں نے مسلمانوں کی حماقت، جہالت اور سستی کو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ لیکن استنبول کے علماء اور دانشوروں کو جمال الدین افغانی کی بات راس نہ آئی اور 1871 میں دانش گاہ کو بند کر دیا گیا اور جمال الدین افغانی کو وہاں سے باہر کا راستہ دیکھنا پڑا۔

جمال الدین افغانی اور مصر

استنبول سے بے دخلی کے بعد جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے مصر کا سفر شروع کیا اور مصر میں قدم رکھتے ہی انہوں نے اپنے سیاسی اصلاح کے افکار کو پھیلانا شروع کیا،م۔ ابتدا میں تو مصری حکومت نے انہیں سہولتیں عطا کریں لیکن جب انہوں نے کھلم کھلا برطانیہ اور فرانس کے خلاف بیان بازی شروع کی تو ان کو 1879 میں مصر سے ہندوستان کی طرف بے دخل کر دیا گیا ہندوستان پہنچنے کے بعد ان کا قیام حیدرآباد اور کولکاتہ میں رہا۔

یہ وہ وقت تھا جب جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے کثرت سے دنیا کے مختلف دارلسلطنتوں کا سفر شروع کیا استنبول، لندن، پیرس، ماسکو سینٹ پیٹرز برگ، میونک اور بھی بہت سے ممالک کا دورہ شروع کیا۔

مصر میں پیر جمانے کے بعد جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) کی سب سے بڑی سرگرمی یہ تھی کہ اسماعیل پاشا کو مصر کے تخت سے کیسے بے دخل کیا جائے کیونکہ اسماعیل پاشا جمال الدین افغانی کی نظر میں ایک برطانوی بٹھو تھا‌۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دوران جمال الدین افغانی نے خیدوی اسماعیل پاشا کو قتل کرنے کا بھی منصوبہ بنایا تھا۔

جمال الدین افغانی کا پین اسلامی نظریہ اور فری میسن ری 

جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنے پین اسلامک اور استعمار مخالف فکر کو پروان چڑھانے کے لیے فری میں سنری کا سہارا بھی لیا۔ لیکن مقامی فری میں سنری کے ممبروں نے سیاست میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور برطانوی استعمار کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا جب فری میسن کے ممبروں نے افغانی کو اس بات سے اگاہ کیا کہ لاج کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے تو جمال الدین افانی نے جواب میں کہا کہ میں نے اس ملک میں مختلف عجیب و غریب چیزوں کا مشاہدہ کیا ہے لیکن میں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ فری میسن ری کے ممبروں میں اس قسم کی بزدلی داخل ہو چکی ہے۔

1875 اور 1876 کے قریب ایک ایسا واقعہ پیش ایا جس میں فری میں سنری کے ممبروں نے بہت ہی کھلے الفاظ میں برطانوی سامراجی مہمان کی مدح وثناء کی جس نے جمال الدین افغانی کو فری میں سنری سے دستبردار ہونے پر آمادہ کر دیا۔

جمال الدین افغانی کی فکری کاوشیں 

1884 میں جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے پیرس میں العروۃ الوثقی نامی ایک عربی زبان کا اخبار شائع کرنا شروع کیا اس میں ان کے شاگرد رشید مفتی محمد عبدہ بھی شامل تھے اس اخبار کا مقصد اسلام کے اصلی اور بنیادی اصولوں اور فکروں کی طرف رجوع کرنا تھا اور امت مسلمہ میں اتحاد اور اتفاق کی راہ ہموار کرنا تھا‌ کیونکہ جمال الدین افغانی کا ماننا تھا کہ اس طرح مسلم امہ متحد ہو جائے گی اور مغربی استعماری قوتوں کے خلاف اپنی قوت کو دوبارہ حاصل کر لے گی۔

جب 1886 میں جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) جنوبی ایران کے شہر بو شہر کے زیارت کر رہے تھے اور اپنے ساتھ کچھ کتابیں وہ روس لے جانا چاہتے تھے تو وہ بیمار پڑ گئے کبھی ناصر الدین شاہ قاچار کے نشر و اشاعت کے وزیر نے انہیں تہران آنے کی دعوت دی اور تہران میں کچھ دن اقامت کے بعد وہ روس کے لیے روانہ ہو گئے۔

جمال الدین افغانی اور روس سے جرمنی کا سفر 

روس میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) جرمنی کے لیے روانہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد ایران لوٹ آئے۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث ایران کے بادشاہ نے ان کو ایران سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن جمال الدین افغانی نے تہران میں موجود شاہ عبدالعظیم کی مزار کے اندر پناہ لے لی تھی بہرحال کچھ ماہ گزرنے کے بعد 1891 میں ان کو گرفتار کیا گیا اور اس وقت عثمانیوں کے زیر حکم سرزمین عراق کی طرف روانہ کر دیا گیا۔

جمال الدین غانی اور بادشاہ ایران

کہا جاتا ہے کہ جمال الدین افغانی (Jamal Uddin Afghani) نے اپنے وقت کے مختلف ممالک کے مختلف بادشاہوں کی مخالفت کی لیکن ان کی سب کھی دشمنی اس وقت کے شاہ قاچار سے تھی جو جمال الدین افغانی کے مطابق برطانوی سامراج کو اسائشیں فراہم کر کے عالم اسلام کو اندر سے کمزور کر رہا تھا۔ مختلف تاریخوں میں یہ بھی درج ہے کہ یہ جمال الدین افغانی کی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ 1891 میں تمباکو احتجاج کے نام سے شہرت پانے والے استعمار مخالف مظاہرے برطانوی سامراج کے خلاف کامیاب رہے اور 1905 میں وجود میں آنے والی دستوری تحریک بھی جمال الدین افغانی کی کاوشوں کا ثمر ہے۔

جمال الدین افغانی کے آخری ایام

آخر کار نو مارچ 1897 میں استنبول میں جبڑوں کے کینسر کے باعث جمال الدین افغانی اس دنیائے فانی سے کچھ کر گۓ