
تعارفی كلمات
جمال عبد الناصر جدید مصری عہد کے ایک مشہور سیاستدان اور عرب دنیا کے نامور اور مقبول عام رہنما تھے جنہوں نے 1954 سے 1970 تک حکومت مصر کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت تاریخ میں قومی وقار، خودمختارانہ عزائم، اور عرب قوم پرستی کی علامت کے طور پر جانی اور یاد رکھی جاتی ہے۔
ان کی مدبرانہ قیادت میں مصر نے نہ صرف داخلی اصلاحات پر توجہ دی بلکہ عرب دنیا میں مصر ایک کلیدی اور مرکزی حیثیت حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ جمال عبد الناصر کی جرات مند شخصیت عزم، حوصلے، اور عرب اتحاد کا استعارہ تھی۔ یورپی استعماری قوتوں کے سامنے جرات مندانہ اور حوصلہ مندانہ استقامت نے جمال عبدالناصر کو پورے عالم عرب میں ایک قومی ہیرو کی شناخت عطا کی۔
جمال عبد الناصر کی ابتدائی زندگی
جمال عبد الناصر 15 جنوری سن 1918 میں مصر کے عظیم تاریخی شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ ان کے والد، عبد الناصر حسین، ایک ڈاک کے محکمے میں کلرک تھے، جبکہ ان کی والدہ، فہیمہ محمد، ایک گھریلو خاتون تھیں۔ جمال عبد الناصر کی ابتدائی تعلیم اسکندریہ اور قاہرہ میں ہوئی۔ تعلیم کے دوران ہی ان میں عرب قوم پرستی اور سیاست میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ اور اسی دلچسپی اور انہماک نے انہیں برطانوی تسلط وجبر سے مصر کو آزاد کرانے کا خواب دکھانا شروع کر دیا تھا۔
جمال عبد الناصر کا فوجی کیریئر
جمال عبد الناصر نے سن 1937 میں قاہرہ کی ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لیا اور 1938 میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ فوج میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے مختلف عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا، جہاں انہوں نے مصر کی فوج کی ناکامی اور کمزوریوں کو قریب سے جانچا اور پرکھا۔ 1948 کی اسی جنگی شکست نے جمال عبدالناصر کے دل و دماغ میں مصری فوج کی عسکری اصلاح اور ازادی کے لیے بے چینی و جدوجہد کا احساس پیدا کر دیا تھا۔
جمال عبدالناصر اور فری آفیسرز تحریک
جمال عبد الناصر جلد ہی ‘فری آفیسرز موومنٹ’ کے بانی اراکین میں شامل ہوگئے۔ یہ تحریک مصر کو بادشاہت اور برطانوی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔ اس تحریک کا مقصد مصر میں جمہوریت، عدل، اور مساوات کا قیام تھا۔ اور چند ہی دنوں میں جمال عبدالناصر اس تحریک کے روح روا سمجھے جانے لگے۔
جمال عبدالناصر اور 1952 کا مصری انقلاب
23 جولائی سن 1952 کو جمال عبد الناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسران نے مصر کے بادشاہی نظام کے خلاف انقلاب کا بگل بجا دیا تھا اور اس انقلاب کے نتیجے میں بادشاہ فاروق اول کو معزول کیا گیا اور مصر میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ یہ انقلاب مصر کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد مصر میں جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔
انقلاب کی کامیابی کے کچھ دنوں تک جنرل محمد نجیب صدر بنے رہے، لیکن جلد ہی جمال عبد الناصر نے اقتدار اپنے قبضے میں لے لیا اور 1954 میں وہ مصر کے وزیر اعظم بنے، اور 1956 میں باضابطہ طور پر مصر کے صدر منتخب ہوئے۔
جمال عبدالناصر اور سوئز نہر کی قومیت
تخت مصر پر متمکن ہونے کے بعد جمال عبدالناصر کا سب سے بڑا فیصلہ نہر سویس کو دوبارہ مصری حکومت کی ملکیت میں شامل کرنا تھا لہذا سن 1956 میں جمال عبدالناصر نے یکا یک مصری فوج کو نہر سویس کی طرف بڑھنے اور اسے حکومت مصر کی تسلط میں لینے کا حکم دیا۔
اس طرح سن 1956 میں اسرائیل فرانس اور برطانوی فوجوں کے ساتھ ایک انتہائی خونی معرکے کے بعد سوویت یونین اور امریکہ عظمی کی مداخلت کے بعد نہر سویس سو سال قدیم یورپی استعماری جبر سے آزاد ہو گئ۔
نہر سویس کا مصری معیشت سے ربط
سوئز نہر مصر کی معیشت کے لیے ایک اہم ذریعہ تھی، اور اسے قومیانے کا فیصلہ مصر کی خودمختاری کی جانب اہم قدم تھا۔ اس بہادرانہ اقدام نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی تھی اور خاص کر 200 سال قدیم فرانس اور برطانیہ کے استعماری قوتوں سے پنجا ازمائی کرنے کے بعد سوئیس کائنات کی قومت حاصل کر کے جمال عبدالناصر نے عالم عرب اور دوسرے ایشیائی و افریقی ممالک میں اپنا مقام اور دبدبہ حاصل کر لیا تھا۔
جمال عبدالناصر اور عرب قوم پرستی

جمال عبد الناصر نے عرب قوم پرستی کی ترویج و اشاعت میں ایک کلیدی کردار ادا کیا اور عرب قوم پرستی کے نعرے کے ضمن میں عرب ممالک کو متحد کرنے کی مختلف کاوشیں کیں۔ اور سن 1958 میں جمال عبدالناصر کی ان کوششوں کا پہلا ثمر مصر اور مملکت شام کے اتحاد کے نتیجے میں وجود میں ایا اور مصر اور شام جیسے عالم عرب کے دو بڑے ممالک متحد ہو کر ‘متحدہ عرب جمہوریہ’ بن گئے۔
یہ اتحاد اگرچہ زیادہ دیر نہ چل سکا، لیکن اس نے عرب اتحاد کے خواب کو زندہ کیا۔ جمال عبد الناصر کا ماننا تھا کہ عرب ممالک کو اپنی طاقت کو متحد کرنا چاہیے تاکہ وہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکیں۔
جمال عبدالناصر اور اشتراکی اصلاحات
جمال عبد الناصر نے مصر میں زمینی اصلاحات، تعلیمی ترویج اشاعت، صنعتی ترقی، اور معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشرتی عدل کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کی پالیسیاں غریبوں اور کسان طبقے کی فلاح پر مرکوز تھی لہذا اس کی تکمیل کے لیے انہوں نے بڑے زمینداروں سے زمینیں لے کر چھوٹے چھوٹے کسانوں اور مزدور طبقوں میں ان زمینوں کو تقسیم کرنے میں ایک حد تک کامیابی حاصل بھی کی۔
جمال عبدالناصر اور تعلیم کا شعبہ
تعلیم کے میدان میں انہوں نے بڑے پیمانے پر اصلاحات اور بنیادی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے مفت تعلیم کا نظام متعارف کرایا، تاکہ ہر طبقے کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ صنعتی ترقی کے لیے انہوں نے بڑے پیمانے پر منصوبے شروع کیے، جن میں اسوان ہائی ڈیم کا منصوبہ سب سے اہم اور تاریخی تھا۔
سن 1967 کی جنگ اور چیلنجز
1967 کی چھ روزہ جنگ میں مصر کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست فاش کھانی پڑی، جو جمال عبد الناصر کی قیادت، ان کے وقار، اور عوام میں ان کی مقبولیت کو لگنے والا پہلا سب سے بڑا جھٹکا تھا۔ اس جنگ میں مصر، اردن، اور شام کی مشترکہ فوجیں اسرائیل کے سامنے کمزور اور باونی ثابت ہو گئی تھیں۔ اس شکست کے بعد جمال عبد الناصر نے ذمہ داری قبول کی اور استعفیٰ دینے کی کوشش کی، لیکن عوام نے انہیں اپنے منصب پہ بنے رہنے پر مجبور کر دیا۔
جمال عبدالناصر اور غیر جانبدار تحریک
جمال عبد الناصر کی قیادت نہ صرف عرب دنیا بلکہ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے بھی متاثر کن رہی۔ انہوں نے نان الائنڈ موومنٹ (غیر جانبدار تحریک) میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ تحریک ان ممالک کے لیے تھی جو سرد جنگ کے دوران امریکہ یا سوویت یونین کے ساتھ کسی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ جمال عبد الناصر نے ان ممالک کو متحد کرنے اور ان کی آزادی کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔
وفات
28 ستمبر 1970 کو جمال عبد الناصر کا انتقال ہوا۔ ان کی وفات کی وجہ دل کا دورہ بتائی جاتی ہے۔ ان کی وفات پر پورے عرب دنیا میں سوگ منایا گیا، اور لاکھوں لوگوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی۔ جمال عبد الناصر کی وفات نے عرب دنیا کو ایک بڑے رہنما سے محروم کر دیا۔
جمال عبد الناصر کی قائدانہ وراثت
جمال عبد الناصر کی میراث صرف مصر تک محدود نہیں ہے۔ ان کی قیادت نے عرب دنیا کو ایک نئی سمت دی، اور ان کے نظریات آج بھی عرب قوم پرستی کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے عرب ممالک کو یہ سکھایا کہ وہ اپنی طاقت کو متحد کر کے عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔
ان کی سوشلسٹ پالیسیوں نے مصر میں سماجی انصاف کی بنیاد رکھی، اور ان کی تعلیمی اور صنعتی اصلاحات نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ اگرچہ ان کی کچھ پالیسیوں پر تنقید بھی کی جاتی ہے، لیکن ان کی عوامی خدمت اور عرب اتحاد کے لیے کوششیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
جمال عبد الناصر ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے اپنی قوم اور عرب دنیا کے لیے بے مثال خدمات انجام دیں۔ ان کی قیادت میں مصر نے نہ صرف داخلی اصلاحات کا سفر طے کیا بلکہ عرب دنیا میں ایک مرکزی حیثیت بھی حاصل کی۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کے نظریات اور اقدامات عرب دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔