علی گڑھ تحریک اور اردو  زبان و ادب کی تعمیر نو کی کاوشیں

تعارف

انیسویں صدی کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور تہذیبی انگڑائیوں اور قلابازیوں کا محور بن کے عالمی منظر نامے پہ اپنی شناخت اور پہچان بنا چکا تھا۔ اور برطانیہ کا خونی اور استعماری شکنجہ ہندوستان کو اور ہندوستانی قوم کو مکمل طور پر اپنے قبضے قدرت میں لے چکا تھا۔ اسی دور میں شمالی ہند میں برپا ہونے والی ایک عظیم فکری و تعلیمی تحریک ابھر کے سامنے آتی ہے جسے علی گڑھ تحریک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 

یہ تحریک سر سید احمد خان کی قیادت میں شروع ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں جدید تعلیم اور فکری بیداری پیدا کرنا تھا۔ اس تحریک نے نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا بلکہ اردو زبان و ادب کی ترقی وہ ترویج میں بھی غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

علی گڑھ تحریک کا پس منظر

سن 1857ء کی جنگ آزادی میں ملنے والی شکست فاش کے بعد برصغیر کے مسلمانوں پر انگریزوں کا غصّہ قہر بن کے ٹوٹ پڑا۔ یہی وہ دور تھا جب سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی تعلیمی تعمیر نو اور سماجی اصلاح اور سیاسی بصیرت کے احیاء کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی، اور علی گڑھ تحریک کی غیر رسمی طور پر شروعات ہو گئی۔

علی گڑھ تحریک اور اس کا مقصد 

 اس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں تعلیم کی اہمیت اور تعلیمی جدوجہد کی فکر کو پیوست کیا جا سکے تاکہ مسلمان جدید تعلیم حاصل کرکے دوبارہ اپنی عظمت رفتہ کو حاصل کر سکیں اور اپنے مستقبل کو باعزت و باوقار بنا سکیں۔ 

علی گڑھ تحریک کے زیر اثر 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی گئی، جس بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کر لی۔

علی گڑھ تحریک اور اردو زبان کی ترویج 

علی گڑھ تحریک نے اردو زبان کو فروغ اور اس کی نشوونما میں مختلف حیثیتوں سے اپنا کردار ادا کیا:

جدید تعلیم کے ذریعے اردو کو فروغ

علی گڑھ تحریک کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔ چنانچہ علی گڑھ کے تعلیمی اداروں میں اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تاکہ مسلمان آسانی سے جدید علوم سے آشنا ہوسکیں۔ اس کے نتیجے میں اردو زبان میں علمی و سائنسی اصطلاحات متعارف کرائی گئیں اور اردو کا دائرہ کو وسعت فراہم کرنے کی جدوجہد شروع کی گئی۔

اردو صحافت کا فروغ

علی گڑھ تحریک نے اردو صحافت کو بھی فروغ دیا۔ سر سید احمد خان نے رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا، جس میں نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی اصلاح پر زور دیا گیا بلکہ اردو زبان میں جدید خیالات اور اصطلاحات کو متعارف کرایا گیا۔ تہذیب الاخلاق نے اردو نثر سادگی و سہولت کے ساتھ ساتھ اس میں ارائش اور جمال کا رنگ بھر دیا اور دیکھتے دیکھتے ایک جدید لسانی انقلاب وجود میں آگیا۔

جدید نثر کی تشکیل

علی گڑھ تحریک سے پہلے اردو نثر زیادہ تر داستانوی اور روایتی طرز تک محدود تھا، مگر سر سید احمد خان اور ان کے ہم نواؤں اور حواریوں نے نے اسے سادہ اور سائنسی انداز میں ڈھالا، اور اسے عام خاص میں مقبولیت فراہم کرنے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے سادہ، دلنشین اور عام فہم اردو میں مضامین لکھے، جس کی وجہ سے اردو نثر میں عقلیت پسندی، سادگی اور اثر انگیزی کو بے حد فروغ ملا۔

اردو ادب میں نئے موضوعات کا اضافہ

علی گڑھ تحریک نے اردو ادب کو محض عشقیہ و تخیلاتی موضوعات تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ سماجی اصلاح، تعلیم، سائنس اور ترقی پسند نظریات کو بھی ادب کا جزء لا‌ینفک بنا دیا۔ سر سید، حالی، شبلی نعمانی اور نذیر احمد جیسے ادیبوں، مفکروں اور دانشوروں نے اردو ادب میں حقیقت پسندی اور اصلاحی رنگوں کا مہمیز لگا کر اس کو بلندیوں پہ پہنچا دیا۔

علی گڑھ تحریک اور اردو شاعری

علی گڑھ تحریک کے زیر اثر اردو شاعری میں بھی ایک جدید رجحانات نئے انداز اور نئی رنگا رنگی پیدا ہوئی۔ اس سے قبل شاعری زیادہ تر عشق و محبت، تصوف اور کلاسیکی مضامین پر مشتمل ہوتی تھی، لیکن علی گڑھ تحریک کے زیر اثر شاعری میں تعلیمی بیداری اور اصلاحی خیالات نمایاں طور پر نظر انے لگے۔

الطاف حسین حالی کی مسدس

حالی نے اپنی مشہور مسدس حالی میں مسلمانوں کی زبوں حالی، تعلیم کی ضرورت اور جدید ترقی پر زور دیا۔ ان کی شاعری نے اصلاحی فکر کو فروغ دیا اور اردو شاعری میں عقلیت اور حقیقت پسندی کی بنیاد رکھی۔

شبلی نعمانی کا شعری و نثری ورثہ

شبلی نعمانی نے اسلامی تاریخ، سیرت النبیؐ، اور قوم پرستی کو اردو شاعری میں جگہ دی۔ ان کی تصانیف نے اردو میں تحقیقی ادب کی بنیاد رکھی اور علمی و ادبی حلقوں میں ایک نئی فکر کو فروغ دیا۔

اکبر الہ آبادی کی طنزیہ شاعری

اکبر الہ آبادی نے جدیدیت کے منفی پہلوؤں پر طنز کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو جدید علوم کے حصول پر راغب کیا۔ ان کی شاعری علی گڑھ تحریک کے اصلاحی پیغام کی عکاسی کرتی ہے۔

علی گڑھ تحریک کے اہم ادبی شخصیات

علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں کئی عظیم ادبی شخصیات نے اردو ادب کو ثروت مند بنایا:

اختتام 

علی گڑھ تحریک نہ صرف ایک تعلیمی اور سماجی تحریک تھی بلکہ اس نے اردو زبان و ادب کو جدید فکر، وسعت اور گہرائی عطا کی۔ اس تحریک نے اردو زبان میں سائنسی، تحقیقی اور اصلاحی ادب کو فروغ دیا، اردو نثر کو سادگی اور اثر انگیزی بخشی، اور اردو شاعری کو قومی بیداری اور تعلیمی جدوجہد کا ذریعہ بنایا۔ آج بھی علی گڑھ تحریک کے اثرات اردو زبان و ادب میں واضح طور پر نظر آتے ہیں، اور یہ تحریک ہمیشہ اردو ادب کی ترقی کا سنگ میل سمجھی جائے گی۔