تعارف
علی گڑھ تحریک برصغیر ہند کی سنہری تاریخ میں ایک غیر معمولی سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس نے مسلمانان ھند کو نہ صرف جدید تعلیم سے آراستہ کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی بلکہ بروقت سماجی اصلاح کی راہ پر لگانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہ تحریک نابغہ وقت اور نباض عصر عالی وقار سر سید احمد خان کی قیادت میں انیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں شروع ہوئی اور اس کا مقصد مسلمانوں میں تعلیمی، سماجی اور فکری بیداری کی روح پھونکنا تھا۔
علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج (MAO کالج) قائم ہوا، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا۔ اس تحریک نے نہ صرف مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا بلکہ برصغیر کی سیاست، معیشت اور ثقافت پر بھی دیرپا اثرات چھوڑے۔
علی گڑھ تحریک کا پس منظر
انگریزوں کے خلاف ہونے والے سن 1857 کے ناکام انقلاب کے بعد مسلمانان ہند کی سیاسی ، سماجی، تعلیمی اور بطور خاص حکومتی صورتحال دن بہ دن مزید ناگفتہ بہ ہوتی چلی گئ۔ ایک طرف مسلمان ادارتی عہدوں اور حکومتی منصبوں سے محروم ہوتا گیا تو دوسری طرف انگریزوں نے اسے 1857 کی بغاوت کا بلا واسطہ ذمہ دار قرار دے کر اپنے عتاب کا قہر مسلمانوں پڑ توڑنا شروع کردیا ۔ ہزارہا ہزار انقلابیوں کو صولی سے لٹکا کر موت کے آغوش میں بھیج دیا گیا۔
مسلمانوں سے انکی جائیدادیں چھین کے ضبط کر لی گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جلا وطن کر دیا گیا ۔ جو بچ گۓ وہ محض لاچار و بے بس تھے ایسے میں مسلمان حکومت، تعلیم اور معیشت سے بے دخل کر دۓ گۓ۔ اور نتیجتاً مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی ترقی تھم سی گئی۔ سر سید احمد خان نے محسوس کیا کہ اگر مسلمانوں کو دوبارہ اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنی ہے تو انہیں جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی زبان اور سائنس کی طرف توجہ دینی ہوگی۔۔
سر سید احمد خان اور علی گڑھ تحریک
سر سید احمد خان علی گڑھ تحریک کے بانی اور روحِ رواں تھے۔ وہ ایک مفکر، مدبر، اور تعلیمی مصلح تھے، جنہوں نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اپنی زندگی کا ہر قیمتی لمحہ نچھاور کر دیا۔ انہوں نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے مختلف اقدامات کیے، جن میں اسکول، کالج، اور سائنسی سوسائٹیز کا قیام شامل تھا۔
علیگڑھ تحریک اور محمدن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام
1875 میں سر سید احمد خان نے علی گڑھ میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جس کا مقصد مسلمانوں کو مغربی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی روایات کی روشنی میں مستقبل کے لیے آمادہ کرنا تھا۔ یہ وہی کالج تھا جس نے بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل اختیار کی، جو آج بھی برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی آب حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔
علی گڑھ تحریک اور اس کے مقاصد
علی گڑھ تحریک کے بنیادی مقاصد میں سر فہرست مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رواج پیدا کرنا تھا اور ساتھ ہی ساتھ انگریزی زبان اور سائنس کی تعلیم کو مسلمانان ہند کے درمیان عام کرنا تھا۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کو جدید معاشرتی اور سیاسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور برطانوی حکومت اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت پیدا کرنا اور نتیجتاً مسلمانوں میں اتحاد اور ترقی کا شعور اجاگر کرنا جو دہائیوں سے پسماندگی اور پچھڑے پن میں کہیں دفن ہو کر رہ گیا تھا۔
علی گڑھ تحریک اور تعلیمی جد وجہد کا آغاز
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں نمایاں کردار تو ادا کیا ہی، اس کے علاوہ اس تحریک کے نتیجے میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اسلامیہ کالج لاہور، دیگر اہم تعلیمی ادارے شامل ہیں جو برصغیر کے باشندوں کی علمی وفکری نشوونما میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
علی گڑھ تحریک اور سیاسی بیداری کا احساس
علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ اس تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو یہ احساس ہوا کہ انہیں ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔
سر سید احمد خان کے دیگر اصلاحی اقدامات
علی گڑھ تحریک کے علاوہ، سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے دیگر اقدامات بھی کیے جن میں سر فہرست سائنٹفک سوسائٹی کا قیام (1864) ہے، رسالہ تہذیب الاخلاق کی اشاعت (1870) اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے مضامین اور تقاریر کا اہتمام اور آخر میں اسلامی اقدار کو جدید علوم کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش۔

علی گڑھ تحریک اور ادب میں انقلابی تبدیلیاں
علی گڑھ تحریک نے اردو زبان و ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس تحریک کے زیر اثر اردو صحافت اور تنقیدی ادب کو جو فروغ حاصل ہوا آنے والی نسلیں نہ اسے نظرانداز کر سکتی ہیں نہ فراموش کرنے کی جرأت کر سکتی ہیں۔ سر سید احمد خان کے مضامین، مولوی چراغ علی، الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، اور دیگر مفکرین و ادباء نے اردو ادب کو جدید نظریات سے روشناس کرایا اور اردو ادب میں ایک ایسی روح پھونکی کہ اردو زبان کا شمار آج دنیا عظیم الشان زبانوں میں کیا جاتا ہے۔
علی گڑھ تحریک کے نتائج واثرات
دہائیوں پہ محیط علی گڑھ تحریک کے اثرات اتنے گہرے اور دوررس ہوۓ کہ چند مضامین اور اور مقالوں میں ان کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ مگر پھر بھی قارئین کی سہولت اور اختصار کے پیش نظر ہم خلاصے کے طور پر یہ کہ سکتے ہیں کہ علی گڑھ تحریک مسلمانوں میں جدید تعلیم کے رجحان کا آغاز تھی.
یہ تحریک نامور دانشورں، سیاستدانوں، اور سائنسدانوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا نام ہے اور مسلمانوں میں قومی اور سیاسی شعور کی شروعات اور اسی تحریک نے اردو زبان و ادب میں جدیدیت کا آغاز کیا اور مسلمانوں کی معیشت، سیاست، اور سائنسی علوم میں روز بروز بڑھتی دلچسپی اسی تحریک کی مرہون منت ہے۔
اختتام
علی گڑھ تحریک برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک انقلابی لمحہ اور دور تھا جس نے انہیں جدید علوم، سیاست، اور سماجی تبدیلی اور انقلاب کی راہ پر گامزن کیا۔ سر سید احمد خان کی قیادت میں مسلمانوں نے تعلیم تعلیم کی اہمیت کو سمجھا سیاسی اور سماجی شعور بیدار کیا اور ایک نئے تعلیمی دور اور علمی ماحول کا اغاز کیا۔ آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اس کی علمی روایتیں بر صغیر کے باشندوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ ع
لی گڑھ تحریک کا پیغام آج بھی یہی ہے کہ اگر کوئی قوم ترقی کی راہوں پہ گامزن ہونا چاہتی ہے، اور ستاروں پہ کمندیں ڈالنا چاہتی ہے، اور دنیا میں بلند مقام حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے جدید تعلیم کہ زیور سے آراستہ ہونا ہوگا۔