1. تمہید: عہدِ اموی کا تاریخی پس منظر
عربی ادب اسلامی تاریخ کے ہر دور میں نہ صرف ایک فکری آئینہ رہا ہے بلکہ اس نے سیاسی، سماجی اور مذہبی تبدیلیوں کا بھی بھرپور اظہار کیا ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد جب بنو امیہ نے اقتدار سنبھالا تو عرب معاشرے میں نئی سیاسی ساخت، انتظامی نظام، اور ثقافتی میل جول نے جنم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب عربی زبان اسلامی سلطنت کی توسیع کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف خطوں تک پھیلتی جا رہی تھی، اور اس کے اثرات ادب پر نمایاں ہو رہے تھے۔
عہدِ اموی میں شاعری کو قبائلی فخر، سیاسی بیانیے، مدح و ہجو، اور عشق و غم کے اظہار کا ذریعہ بنایا گیا، جبکہ نثر نگاری نے خطبات، خطوط اور مذہبی مضامین کی صورت میں ابتدائی ارتقائی مراحل طے کیے۔
یہ دور عربی ادب کے لیے ایک ایسا عبوری مرحلہ ثابت ہوا، جس میں قدیم جاہلی روایتوں سے نکل کر ایک اسلامی تہذیبی اور فکری شناخت نے جنم لیا۔ اس مضمون میں ہم اسی دور کے مختلف ادبی پہلوؤں، رجحانات اور شخصیات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
2. عربی ادب میں سیاسی اثرات
عہدِ اموی میں سیاست اور ادب کے درمیان گہرا رشتہ قائم ہوا۔ بنو امیہ کو خلافت کی سیاسی مخالفت کا سامنا تھا، خاص طور پر اہلِ بیت اور ان کے حامیوں کی طرف سے۔ اس سیاسی کشمکش نے ادب کو ایک سیاسی آلہ بنا دیا۔ شعرا اور خطبا نے اپنے کلام میں سیاسی وفاداری یا مخالفت کو بیان کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یزید، ابنِ زبیر، حسین بن علی – عليه السلام -، اور جناب مختار ثقفی جیسي شخصیات کے گرد گھومنے والے واقعات نے عربی ادب کو جدلیاتی اور احتجاجی رنگ عطا کیا۔
3. شاعری کی ترقی: فصاحت و بلاغت کا دور
اموی دور میں شاعری سب سے زیادہ نمایاں صنف ادب تھی۔ شعرا نے اپنے قبیلوں، حکمرانوں، یا مخالفین کی حمایت و مخالفت میں اشعار کہے۔ اس دور کے مشہور شعرا میں جریر، فرزدق، اخطل، کثیر عزہ، قیس بن الملوح (مجنون لیلیٰ) اور نصیب نگار شعرا شامل ہیں۔ ان کے کلام میں:
- مدح (تعریف)
- ہجو (طنز و تنقید)
- غزل (عشق و حسن کا بیان)
- رثا (مرثیہ گوئی)
- فخر (قومی و قبائلی فخر)
جیسے موضوعات نمایاں تھے۔
4. ہجو اور مدح کا فروغ
اموی دور کی شعری فضا میں ہجو اور مدح کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ شعرا مدح کے ذریعے انعامات حاصل کرتے اور ہجو کے ذریعے دشمنوں کی تضحیک کرتے۔
جریر اور فرزدق کے درمیان ہونے والے ہجوئی مقابلے عربی ادب کا سنہری باب ہیں، جہاں دونوں نے ایک دوسرے کو قبیلے، حسب و نسب، اخلاق اور مذہب کی بنیاد پر نیچا دکھانے کی کوشش کی۔
اسی طرح، اخطل نے اموی خلفاء کی مدح میں اشعار کہے اور دربار کا مقرب شاعر بن گیا۔
5. خطابت اور سیاسی تقریریں
خطابت عہدِ اموی میں نہ صرف مذہبی اور دعوتی کاموں کے لیے استعمال ہوتی تھی بلکہ یہ سیاسی بیانیہ قائم کرنے کا بھی ذریعہ تھی۔ خطبائے جمعہ، علما، گورنر، اور خلیفہ اپنی پالیسیوں، فتوحات، اور نظریات کو خطبات کے ذریعے عوام تک پہنچاتے۔
مثلاً:
- زیاد بن ابیہ کا کوفہ میں پہلا خطبہ
- حجاج بن یوسف کی خطیبانہ قوت
- عبدالملک بن مروان کی سیاسی تقریریں
یہ سب خطابت کی اعلیٰ مثالیں ہیں جو ادب میں محفوظ ہو چکی ہیں۔
6. نثر کی ارتقا پذیر شکلیں
اگرچہ نثری ادب کی مکمل ترقی عباسی دور میں ہوئی، لیکن اس کی بنیادیں اموی دور میں پڑ چکی تھیں۔ اس دور کی نثری اصناف میں شامل ہیں:
- خطبات (تقاریر)
- مکتوبات (خطوط)
- قصص (کہانیاں)
- امثال (ضرب الامثال)
عبدالحمید الکاتب کو عربی نثر کا امام سمجھا جاتا ہے۔ اس کے خطوط میں سیاسی فہم، اخلاقی تعلیمات، اور فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔
7. مذہبی ادب: قرآن فہمی اور حدیث نویسی
اموی دور میں مذہبی علوم کی تدوین کا آغاز ہوا۔ خاص طور پر:
- قرآن کی تفسیر
- حدیث کی جمع و تدوین
- فقہی اختلافات
ان تمام علمی سرگرمیوں نے عربی زبان و ادب میں گہرائی اور وسعت پیدا کی۔
ابن شہاب الزہری جیسے محدثین نے احادیث کو ترتیب دے کر ادب اسلامی کو ایک علمی خزانے سے مالا مال کیا۔
8. قبائلی اقدار اور فخر کا اظہار
شاعری کا ایک اہم موضوع قبائلی فخر تھا۔ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اس کے شاعر دوسروں پر فخر و مباہات کے اشعار کہے۔
جیسے:
- تمیمی قبیلہ کے شعرا
- قریش اور یمنی قبائل کے باہمی فخر کے بیانات
- شہسواروں، سرداروں اور جنگی کارناموں کا ذکر
یہ رجحان عربی ادب کو تاریخی اور نسلی شعور سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
9. غیر عرب اقوام کا اثر
اسلامی فتوحات کے بعد عربوں کا رابطہ:
- ایرانیوں (عجم)
- رومیوں (بیزنطینیوں)
- مصریوں (قبطی اقوام)
سے بڑھا۔ ان اقوام کے ثقافتی، لسانی اور فکری اثرات عربی ادب پر مرتب ہوئے۔
شاہانِ ایران، افسانوی قصے، حکایات، اور درباری آداب عربی ادب کا حصہ بنے۔ بعد میں یہی رجحانات عباسی دور میں ادبِ قصص و حکایات اور ترجمے کی تحریک کی بنیاد بنے۔
10. اختتامیہ: اموی ادب کی اہمیت
اگرچہ ادبی کمالات کا دور عباسی خلافت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے، لیکن اموی دور کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس نے:
- قبائلی شعور کو ادب میں جگہ دی
- سیاسی خطابت کو فروغ دیا
- نثری ادب کی بنیادیں رکھیں
- مذہبی ادب کو علمی روشنی عطا کی
عہدِ اموی عربی ادب کے لیے ایک ایسا سنگِ میل تھا جس نے شاعری کو نئے موضوعات سے روشناس کرایا، اور نثر کو ایک فکری جہت عطا کی۔ اس دور میں ادب صرف تفریح یا اظہارِ جذبات کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ یہ سیاسی، مذہبی اور سماجی بیانیے کا آلہ بن چکا تھا۔

شعرا نے قبائلی عظمت، سیاسی وفاداری، مدح و ہجو، اور عشق و جمال کے موضوعات کو اپنا کر ایک زرخیز ادبی روایت قائم کی، جبکہ خطبا اور ادبا نے خطابت، مکتوبات اور علمی مذاکرے کے ذریعے عربی نثر کو ترقی کی راہ پر ڈالا۔
اس دور میں اسلامی تعلیمات، مذہبی شعور، اور علمی تدوین نے ادب کو روحانیت اور معنویت سے بھر دیا، اور عربی زبان کو ایک علمی اور فکری لسانی پیکر عطا کیا۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ اموی دور کا عربی ادب نہ صرف اپنے وقت کی تصویر ہے بلکہ عباسی دور کے عظیم ادبی انقلاب کی بنیاد بھی ہے۔ یہ ادب آج بھی اسلامی فکری ورثے کا ایک اہم حصہ ہے جس سے زبان، فکر، تاریخ اور تہذیب سبھی سیراب ہوتے ہیں۔