غالب (Ghalib) کی شاعری اور 1857: زوالِ دہلی کا شعری بیانیہ

تمہید

مرزا اسد اللہ خان غالب (Ghalib) (1797–1869) نہ صرف اردو شاعری کے ستونوں میں سے ایک ہیں بلکہ وہ ہندوستانی تہذیب، معاشرت اور سیاست کے نازک ترین دور کے گواہ بھی تھے۔ ان کا عہد وہ عہد تھا جب ہندوستان نے مغلیہ سلطنت کے زوال اور برطانوی سامراج کے عروج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ 1857 کی جنگِ آزادی نے دہلی کو خون میں نہلا دیا، اور غالب (Ghalib)، جو دہلی کے باسی تھے، اس قیامت کے عینی شاہد تھے۔

غالب (Ghalib) کی شاعری محض رومان پروری یا ذاتی دکھ کی ترجمان نہیں، بلکہ اس میں ایک تہذیب کے بکھرنے، اقدار کے زوال، اور انسانیت کے کچلے جانے کی گہری صدائیں سنائی دیتی ہیں۔ ان کی شاعری میں تاریخ کی وہ صداقتیں چھپی ہوئی ہیں جو سیاسی بیانیوں سے پوشیدہ رہ گئیں۔

1857 کی جنگِ آزادی: ایک تاریخی تناظر

1857 کی بغاوت برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھی۔ اگرچہ اسے بعض مؤرخین نے “سپاہی بغاوت” کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ انگریزوں کے استبداد، مذہبی دخل اندازی، سیاسی بداعتمادی، اور سماجی استحصال کے خلاف ایک ہمہ گیر ردعمل تھا۔ دہلی، لکھنؤ، کانپور اور دیگر مقامات پر برطانوی افواج نے خوفناک قتل عام کیا، جس سے نہ صرف جانیں ضائع ہوئیں بلکہ صدیوں پرانی تہذیب اور علم و ادب کے مراکز بھی راکھ ہو گئے۔

غالب (Ghalib): ایک شکستہ دل شاعر

غالب (Ghalib) نے اس تباہی کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اسے اپنے اشعار، خطوط اور فارسی کلام میں محفوظ بھی کر لیا۔ ان کی شاعری میں دہلی کی بربادی، انسانوں کی بے بسی، تہذیبی زوال اور روحانی خلش کی بھرپور جھلک ہے۔

وہ کہتے ہیں:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

یہ شعر صرف ذاتی حسرتوں کا اظہار نہیں، بلکہ اس دور کے لوگوں کی اجتماعی ناکامیوں کا بھی استعارہ بن چکا ہے۔


تباہ حال دہلی اور غالب (Ghalib) کا نوحہ

غالب (Ghalib) دہلی کو اپنا دل مانتے تھے۔ ان کے دل میں دہلی کی گلیوں، بازاروں، چہل پہل اور علمی فضاؤں سے عشق تھا۔ مگر 1857 کے بعد وہی دہلی ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ غالب (Ghalib) کے کئی خطوط میں اس بربادی کا ذکر ملتا ہے، مثلاً ایک خط میں لکھتے ہیں:

“نہ آدمی نہ آدم زاد، نہ شیر نہ چرند، نہ پرند، سب کچھ خاک و خون ہو چکا ہے۔”

اسی بربادی کا عکس ان اشعار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

غالب (Ghalib) کی فارسی شاعری اور 1857 کی حقیقتیں

غالب کی فارسی شاعری میں جو سادگی، تاثیر اور تاریخ کا شعور ہے، وہ ان کی اردو شاعری سے بھی زیادہ گہرا محسوس ہوتا ہے۔ 1857 کے بعد غالب (Ghalib) نے فارسی میں کئی مرثیے اور نوحے لکھے جو دہلی کی حالتِ زار کا آئینہ دار ہیں۔

ان کی فارسی نظم:

بود کہ بود ما شد، شہر کہن خراب است
مرگ و فراق و غارت، کار این خراب است

(ترجمہ: جو کچھ تھا، سب ختم ہو چکا؛ پرانا شہر ویران ہو چکا ہے؛ موت، جدائی، اور تباہی — یہی اس برباد دہلی کا حال ہے۔)

خطوطِ غالب (Ghalib): تاریخ کی زندہ دستاویز

غالب (Ghalib) کے خطوط اس عہد کی سماجی اور نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ وہ نثر میں شاعری کا سا اثر رکھتے ہیں، اور ان میں 1857 کے بعد کے دہلی کی تصویر ایسی دکھائی گئی ہے جیسے قاری خود وہاں موجود ہو۔

ایک اور خط میں لکھتے ہیں:

“جو کچھ ہوا، اس کا ذکر مت پوچھو۔ دہلی اب وہ دہلی نہیں رہی۔ جو تھا، وہ خواب ہو گیا۔”

حکمران کا زوال اور شاعر کی بے بسی

1857 کے بعد بہادر شاہ ظفر کو رنگون (موجودہ یانگون) جلاوطن کر دیا گیا۔ غالب (Ghalib)، جو دربار سے وابستہ رہے، اس المیے پر اندر ہی اندر ٹوٹ گئے۔

وہ کہتے ہیں:

بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

اور:

ہو چکی غالب بلائیں سب تمام
اک مری مرگِ ناگہانی اور ہے

یہ اشعار صرف انفرادی دکھ نہیں، بلکہ اجتماعی بربادی اور تہذیبی موت کی صدائیں ہیں۔

خاموشی میں چیخنے والی شاعری

1857 کے بعد انگریزوں نے ایسی سنسرشپ نافذ کی کہ شاعر، ادیب، صحافی سب خاموش ہو گئے۔ مگر غالب (Ghalib) نے اپنے شعری پیرائے میں وہ سب کچھ کہا جو بظاہر نہیں کہا جا سکتا تھا۔

ایک شعر میں وہ کہتے ہیں:

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

یہ مکمل بے بسی اور مایوسی کی کیفیت کا عکاس ہے۔

غالب (Ghalib) اور تہذیبِ رفتہ کا مرثیہ

غالب (Ghalib) کی شاعری دراصل ایک تہذیب کے مرنے کا نوحہ ہے — وہ تہذیب جس میں شائستگی، علم، جمالیات، سخن فہمی اور انسان دوستی تھی۔

ان کے اشعار:

زمانہ سخت کم آزار ہے بہ عاشق کے
کہ وہ پیامِ تسلی بھی لے کے جاتا ہے

یا

جلوہ گل نہیں دیتے تماشا مجھ کو
خار ہوں میں، سرِ دیوار ہوں، صحرا مجھ کو

یہ اشعار بتاتے ہیں کہ کیسے ایک حساس دل شاعر اپنی تہذیب، اپنے عہد، اور اپنے شہر کی موت کو محسوس کر رہا ہے۔

اختتاميه

Ghalib

مرزا غالب (Ghalib) کی شاعری 1857 کی بغاوت اور اس کے بعد کے تباہ کن حالات کا صرف ادبی عکس نہیں، بلکہ تاریخی دستاویز ہے۔ وہ شاعر تھے، مگر تاریخ دان سے کم نہ تھے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں جذبات کے ساتھ ساتھ حقائق کو بھی بند کر دیا۔ ان کی شاعری نہ صرف عشق و عرفان کی نمائندہ ہے، بلکہ ایک پوری تہذیب کے زوال کا مرثیہ بھی ہے۔

آج جب ہم غالب (Ghalib) کو پڑھتے ہیں، تو نہ صرف ان کی لفظیات سے لطف اندوز ہوتے ہیں، بلکہ ان کے اشعار میں چھپی صداقتیں اور تاریخ کی چیخیں بھی سنائی دیتی ہیں۔ غالب (Ghalib) نے اپنے قلم سے تاریخ کو زندہ رکھا — ایک ایسا سچ جسے مؤرخ بھی شاید مکمل نہ لکھ پاتا۔