برصغیر کی علمی و ادبی تاریخ میں کئی ایسے رسائل و جرائد ملتے ہیں جنہوں نے علمی و تہذیبی فضا کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اسے نئی جہتیں بھی عطا کیں۔ ان میں ماہنامہ “معارف“ ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یہ رسالہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ سے جولائی 1916ء میں سید سلیمان ندوی کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ “معارف” کا بنیادی مقصد مذہب و فلسفہ کی ترجمانی، جدید تحقیق کا فروغ، اور اردو ادب و تاریخ میں علمی معیار قائم کرنا تھا۔ آج، ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ رسالہ اپنی علمی و تحقیقی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تاریخی پس منظر اور قیام کے محرکات
“معارف” کے پس منظر میں علامہ شبلی نعمانی کا خواب کارفرما تھا۔ شبلی نے 1910ء میں “دارالمصنفین” کے قیام کا تصور پیش کیا تاکہ علمی تصنیف و تالیف کو ادارہ جاتی بنیادوں پر فروغ دیا جا سکے۔ مگر ان کی زندگی میں یہ خواب مکمل نہ ہو سکا اور وہ 1914ء میں وفات پا گئے۔ ان کے شاگردوں—خصوصاً سید سلیمان ندوی، عبدالسلام ندوی، اور حمید الدین فراہی—نے ان کی خواہش کو عملی شکل دی۔
1916ء میں جب “معارف” کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو سید سلیمان ندوی نے اس کے مقاصد کو بڑی وضاحت سے بیان کیا:
- اسلامی عقائد کو عقلی و سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنا۔
- قدیم علوم کو جدید طرز پر مرتب کرنا۔
- اسلامی تاریخ اور اکابر علما کی سوانح پر تحقیقی مضامین شائع کرنا۔
- قرآن و حدیث کے علمی، ادبی اور سماجی پہلوؤں پر مقالات پیش کرنا۔
یہ مقاصد نہ صرف اس وقت کی ضرورت تھے بلکہ آج بھی اپنی معنویت رکھتے ہیں۔
علمی و ادبی خدمات
“معارف” کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا تحقیقی معیار ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مقالات نے نہ صرف اسلامیات بلکہ اردو زبان و ادب کو بھی نئی جہتیں دیں۔ اس کے مستقل عنوانات جیسے شذرات، ادبیات، مباحث حاضرہ، مطبوعات جدیدہ، وفیات اور کتب تبصرے نے اسے ایک جامع اور ہمہ جہت رسالہ بنایا۔
دینی و فلسفیانہ خدمات
“معارف” نے اسلامی علوم کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قرآن و حدیث کی تشریح، فقہی مسائل پر مباحث، اور فلسفہ اسلامی پر مضامین اس کے نمایاں پہلو ہیں۔ اس نے نہ صرف قدیم اسلامی ورثے کو زندہ کیا بلکہ جدید طرز تحقیق کو بھی فروغ دیا۔
ادبی خدمات
ادب کے میدان میں “معارف” نے اردو زبان کے بڑے شعرا اور ادبا کو جگہ دی۔ اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال، حسرت موہانی، جگر مرادآبادی، فانی بدایونی، فراق گورکھپوری، اور عبدالسلام ندوی جیسے بڑے نام اس کے قلمی معاونین میں شامل ہیں۔ شاعری کے انتخاب اور تنقیدی مقالات نے اردو ادب کو نئی توانائی بخشی۔
تبصرہ کتب
“معارف” کے تبصرے اپنی گہرائی اور جامعیت کے لیے مشہور ہیں۔ اس میں صرف کتابوں کا تعارف ہی نہیں بلکہ ان کی خوبیوں اور خامیوں پر کھل کر بحث کی گئی۔ ہزاروں کتابوں پر شائع شدہ تبصرے اردو ادب اور تحقیق کے طلبہ کے لیے خزانہ ہیں۔
ممتاز قلمکار اور علمی سرمایہ
“معارف” سے وابستہ قلمکاروں میں برصغیر کے عظیم مفکر اور ادیب شامل ہیں، جن میں:
- علامہ اقبال
- مولانا محمد علی جوہر
- عبدالسلام ندوی
- عبدالمجید دریابادی
- حبیب الرحمن خاں شروانی
- پروفیسر نذیر احمد
- ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
- پروفیسر اکبر حیدری کشمیری
ان کے مضامین نے “معارف” کو عالمی سطح پر علمی حلقوں میں معتبر مقام عطا کیا۔ خاص طور پر مرزا غالب اور علامہ اقبال پر شائع شدہ مقالات اپنی نوعیت کے منفرد ہیں۔
خصوصی شمارے
“معارف” کی تاریخ میں صرف تین خصوصی نمبر شائع ہوئے ہیں، جو اس کی سنجیدہ اور تحقیقی پالیسی کی علامت ہیں:
- سید سلیمان ندوی نمبر
- حبیب الرحمن خاں شروانی نمبر
- شبلی صدی نمبر (2015ء)
یہ خصوصی شمارے نہ صرف شخصیات کو خراج تحسین ہیں بلکہ علمی و تحقیقی مواد کا گراں قدر سرمایہ بھی ہیں۔
اردو زبان کے فروغ میں کردار
“معارف” نے اردو زبان کے فروغ اور دفاع میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ اردو-ہندی تنازع کے دوران اس نے ہمیشہ اعتدال پسند مگر اصولی موقف اختیار کیا۔ اس کے “شذرات” سے واضح ہوتا ہے کہ اردو کو تعلیمی زبان بنانے اور عام فہم زبان کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
سید سلیمان ندوی نے 1937ء میں لکھا کہ:
“خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ فضا ایک مشترک دیسی زبان کے لیے جس کا پسندیدہ نام ہندوستانی پڑ رہا ہے، بہت سازگار ہو رہی ہے۔”
یہ “معارف” کی زبان دوستی اور وسعتِ نظر کا ثبوت ہے۔
مشکلات اور چیلنجز
اپنی ایک صدی کی تاریخ میں “معارف” کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا۔ سب سے بڑا مسئلہ مالی وسائل کی کمی رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس رسالے نے اپنی علمی روایت کو جاری رکھا۔ اس کی بقا میں اس کے مدیران اور دارالمصنفین کے وابستگان کی محنت اور اخلاص کا بڑا ہاتھ ہے۔
ماہنامہ “معارف” اردو صحافت اور تحقیق کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ صرف ایک جریدہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، جس نے دینی و فلسفیانہ مباحث، اردو زبان و ادب، اور تحقیق کے میدان کو نئی روشنی بخشی۔ اس نے صدیوں پر پھیلے علمی سرمایہ کو زندہ رکھا اور نئی نسل کے لیے تحقیق و فکر کا پلیٹ فارم فراہم کیا۔
ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود “معارف” آج بھی اپنی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھا رہا ہے۔ اس کی بقا اور تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ جب اخلاص اور علمی دیانت داری کسی ادارے کی بنیاد ہو، تو وقت اور حالات بھی اسے ختم نہیں کر سکتے۔