پہلی عرب اسرائیلی جنگ 1948 میں اس وقت شروع ہوئی جب پانچ عرب ممالک نے فلسطینی مینڈیٹ کے تحت انے والے علاقے پر اس وقت حملہ کر دیا جب 14 مئی 1948 میں ریاست اسرائیل کی آزادی کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہودیوں کی خفیہ مسلح افواج اور پہلی عرب اسرائیلی جنگ میں اس کا کردار
جب بھی پہلی عرب اسرائیلی جنگ کا ذکر آئے گا ساتھ ساتھ یہودیوں کی سب سے بڑی خفیہ عسکری تنظیم کا ذکر بھی آئیگا جس کو ہاغانا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ خفیہ تنظیم تقریبا 35 ہزار مسلح افراد پر مشتمل تھی جس میں مرد اور خواتین دونوں سرگرم تھے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم میں دوسری بہت سی مختلف جماعتوں کے لڑاکو اور جنگجو بھی وقتا فوقتا اپنی خدمات دیتے رہتے تھے۔ یہ یہودی لشکر چھوٹے چھوٹے اور ہلکے اسلحوں پہ مشتمل تھا اور بہت زیادہ ٹرینڈ بھی نہیں تھا۔
ماضی میں برطانوی فوج میں کام کر چکے کچھ جنگجو اس کی پشت پناہی کر رہے تھے جن کو بھاری اور بڑرے اسلحے کی اشد ضرورت تھی۔ اگر ثقیل اور بھاری اسلحوں کی بات کی جائے تو اس تنظیم کے پاس پرانے طرز کے ساتھ لڑاکو جہاز تھے گرچہ چیکوسلوواکیہ نے دسیوں ہزار ہلکے اسلحوں سے اس تنظیم کی بہت زیادہ مدد کی تھی اس کے علاوہ دسیوں لڑاکو جہاز بھی فراہم کیے تھے۔
فلسطینی اور عرب
اگر صہیونی اور یہودیوں کے مدمقابل عرب اور فلسطینیوں پہ نظر ڈالی جائے تو ان میں 10 ہزار فلسطینی تھے جو کہ چھوٹی چھوٹی ملیشیا کی شکل میں تھے۔ علاوہ ازیں ان 10 ہزار فلسطینی لڑاکوں کی پشت پناہی جوار کے منظم فوجیں کر رہی تھیں جن میں سیریا، مصر اور اردن پیش پیش تھے۔ ان ممالک کے فوجوں میں دسیوں ہزار لڑاکو تھے جو بھاری اسلحے سے لیس تھے جیسے ارٹیلری اور ٹینک وغیرہ۔ یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر اسلحے دوسری جنگ عظیم سے قبل تعلق رکھتے تھے۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 181
29 نومبر 1947 اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداز 181 جسے تقسیم کی قرارداد بھی کہا جاتا ہے کو منظور کیا جس کے تحت مئی 1948 میں برطانیہ کے سابق فلسطینی علاقے یا مینڈیٹ کو یہودیوں اور عرب ریاستوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔ اس قرارداد کے تحت جیروسلم سے متصل مذہبی اہمیت کا حامل علاقہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام بین الاقوامی تسلط میں رہے گا۔
فلسطینیوں اور عربوں کا اس قرارداد کو تسلیم کرنے سے انکار۔
فلسطینیوں اور عربوں نے اس تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا یہ تقسیم ان کے حساب سے یہودیوں کے لیے نہایت سازگار تھی اور عرب آبادی کے لیے یہ ایک قسم کی ناانصافی تھی خاص کر ان عرب آبادیوں کے لیے جو تقسیم کے تحت یہودی علاقے میں اور یہودی تسلط میں زندگی بسر کریں گے۔
پہلی عرب اسرائیلی جنگ کا شعلہ
اقوام متحدہ کے اس قرارداد نے سرزمین فلسطین میں رہنے والے عربوں اور یہودیوں کے درمیان ایک قسم کا شدید تنازع پیدا کر دیا تھا۔ اور دھیرے دھیرے عربوں اور یہودیوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا جس میں پیش پیش عرب لبریشن آرمی کے مقامی اکائیوں سے منسلک فلسطینی عربوں کے غیر منظم مسلح جماعتیں تھیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر جوار کے عرب ممالک سے آکر اس جنگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ان غیر منظم مسلح جماعتوں نے یہودی قبضوں والی بستیوں اور علاقوں پر چھوٹے چھوٹے حملے کرنا شروع کر دیے تھے اور اسی کے ساتھ یہودیوں کے مسلح افواج کے خلاف بھی اپنے حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔
یہودیوں کی جنگی تیاری اور ان کی مسلح جماعتیں
جہاں تک فلسطین میں موجود یہودی افواج کا تعلق تھا تو وہ ان میں سر فہرست یہودیوں کی خفیہ ملیشیا تنظیم ہگانہ تھی اور دو چھوٹے غیر منظم مسلح جماعتیں ارگن اور لیہی تھیں۔ عرب مسلح افواج اور جنگجوؤں کا اولین مقصد یہ تھا کہ جو تقسیم کی قرارداد ہے اس کو روکا جا سکے اور یہودی ریاست کے قیام کا راستہ بند کیا جا سکے۔ لیکن دوسری طرف یہودیوں کو پوری طرح یہ امید تھی کہ تقسیم کی قرارداد کے بعد انہیں فراہم کیے گئے علاقوں پر مکمل تسلط حاصل ہو جائے گا۔
یہودی ریاست کی آزادی کا اعلان
جب 14 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو جھڑپوں نے خود بخود شدت اختیار کر لی اور جیسے جیسے مختلف عرب مسلح قوتیں فلسطینی عربوں کے ساتھ شریک ہوتی گئی ویسے ویسے جنگ تیز ہوتی گئی۔ 14 مئی کی شام کو عربوں نے مجموعی طور تل ابیب پر ایک ہوائی حملہ کیا جس کو اسرائیل نے بہت حد تک ناکام بنا دیا۔ اور اس ہوائی حملے کے بعد لبنان، سیریا، عراق اور مصر کی مسلح افواج نے زمینی حملے کی شروعات کری۔ سعودی عرب نے بھی اپنے جنگجوؤں کو اس جنگ میں شرکت کے لیے روانہ کیا تھا جو مصری کمانڈ کے اندر لڑ رہے تھے۔
برطانیہ کی براہ راست مداخلت
آخر کار برطانیہ کی تربیت یافتہ افواج جو کی ٹرانس جارڈن میں موجود تھی اس تنازع میں براہ راست شریک ہو گئی یہ الگ بات ہے کہ اس نے انہی علاقوں پر اپنی توجہ مرکوز کی جو اقوام متحدہ کے تقسیم کے منصوبے اور یروشلم کے کارپس سپریٹم کے تحت آتے تھے۔ اور ایک شدید اور خونی جنگ کے بعد اسرائیلی مسلح افواج نے جو کہ اب متحد بھی ہو چکی تھی جنگ میں فوقیت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔
جنگ بندی اور اقوام متحدہ کا کردار
اگرچہ اقوام متحدہ نے اس جنگ کو دو بار بند کروانے کی کوشش کری لیکن جنگ 1949 تک جاری رہی۔ اسرائیل اور عرب ریاستیں فروری تک کسی رسمی جنگ بندی کے معاہدے پہ متفق نہ ہو سکیں۔ لیکن پھر اسرائیل اور دوسری عرب ریاستوں جیسے مصر، لبنان، ٹرانس جارڈن اور سیریا کے مابین مختلف معاہدوں کے تحت باضابطہ جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔
اس جنگ بندی کے نتیجے میں اسرائیل کو وہ علاقے بھی حاصل ہوئے جو اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت 1947 میں فلسطینی عربوں کو دیے گئے تھے۔ مصر نے غازہ پٹی پر اپنا تسلط برقرار رکھا اور اسی طرح اردن نے مغربی کنارے کو حاصل کرنے میں کامیابی پائی۔ اور یہ جنگ بندی کا معاہدہ 1967 تک باقی رہا۔