سایکس پیکو معاہدہ: مشرق وسطیٰ کی تقسیم کا استعماری منصوبہ

سایکس پیکو

تعارف

سایکس پیکو معاہدہ سن 1916ء میں واقع ہونے والا اہم ترین تاریخی حادثہ ہے۔ بلکہ اس کو حادثہ نہ کہہ کے، بیسویں صدی کی سب سے بڑی سازشوں میں سے ایک شمار کیا جا سکتا ہے۔ 

اس سازش کے تحت اس وقت کی دو بڑی استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس اس اس معاہدے کا پیش خیمہ بنایا اور اس کے خد و خال تیار کۓ جس کے تحت سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد مشرق وسطیٰ کی تقسیم کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس معاہدے نے خطے کی سیاسی صورتِ حال کو اس حد تک بدل دیا کہ آج تک مشرق وسطی اس سازش کے ضمن میں پیدا ہونے والی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا انجام بھگت رہا ہے۔

سایکس پیکو معاہدے کا پس منظر

جنگِ عظیم اول کے دوران اتحادی طاقتیں (جن میں فرانس و برطانیہ پیش پیش تھیں) اس بات کا اندازہ لگانے میں بہت حد تک کامیاب ہو چکی تھیں کہ سلطنت عثمانیہ عنقریب ٹوٹنے والی ہے۔ اس صورتِ حال میں برطانیہ، فرانس، اور روس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تقسیم کا منصوبہ بنایا۔

سایکس پیکو معاہدے کے فریق

معاہدہ برطانیہ کی طرف سے مارک سائکس اور فرانس کی طرف سے فرانسواں جارج پیکو کے درمیان طے پایا۔ ان دونوں نے اپنے ممالک کے نمائندوں کے طور پر خطے کی تقسیم کے لیے خفیہ ملاقاتیں اور مذاکرات کیے۔

سایکس پیکو معاہدے کی بنیادی شقیں

سایکس پیکو معاہدے کے مطابق:

  • فرانس کو شام، لبنان، اور جنوب مشرقی ترکی میں اثر و رسوخ دیا جائے گا۔
  • برطانیہ کے حصے میں عراق، اردن، اور فلسطین آئیں گے
  • فلسطین کو بین الاقوامی خطہ قرار دیا جائے گا، جہاں برطانیہ، فرانس اور روس مشترکہ طور پر اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

سایکس پیکو اور روس کا کردار

اگرچہ روس سایکس پیکو معاہدے کا حصہ تھا، لیکن 1917ء میں روسی انقلاب کے بعد یہ خفیہ معاہدہ بالشویک حکومت نے افشا کر دیا، جس نے دنیا کے سامنے اس استعماری سازش کو بے نقاب کر دیا۔

عربوں کے ساتھ ایک بڑا دھوکہ

برطانیہ نے ایک طرف عربوں کو آزادی کا وعدہ کیا تھا (مکاتباتِ مکماہن-حسین کے ذریعے)، مگر دوسری طرف فرانس کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے عربوں کے ساتھ دوہرا کھیل کھیلا، جس نے پورے عالم عرب میں ایک شدید غصے کی لہر کو ہوا دے دیا تھا۔

سایکس پیکو معاہدے کے اثرات

سایکس پیکو
  • سایکس پیکو معاہدے کے نتیجے میں عربوں کے درمیان ایک قسم کی شدید مایوسی اور بد اعتمادی پیدا ہو گئی تھی۔
  • خطے میں عرب قوم پرستی کی تحریکوں نے زور پکڑا اور عرب قوم پرستی کی وکالت کرنے والے دانشور اور مفکرین نے قوم پرستی پہ مبنی ایک بڑے ادب کی بنیاد رکھی۔
  • فلسطین اور دیگر علاقوں میں دیرپا تنازعات کا آغاز ہوا۔ اور ان تنازعات کے نتیجے میں مستقبل قریب میں برطانیہ کی انتھک کوششوں کے بعد سرزمین فلسطین میں ایک ناجائز صہیونی ریاست کا قیام ہوا۔

سایکس پیکو معاہدے پر ہونے والی تنقید

معاہدہ سائکس پیکو کو مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی سازش کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف عرب عوام کی خواہشات اور تمناؤں کے خلاف ایک بہت بڑی چال تھی بلکہ اس معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والی مصنوعی سرحدوں نے خطے میں کبھی نہ ختم ہونے والے تنازعات کو پیدا کیا اور آج تک یہ جبری تقسیم اس خطے کو استحکام اور استقرار حاصل کرنے نہیں دے رہی ہے۔

سایکس پیکو اور موجودہ دور میں اس خطے کی اہمیت

آج بھی مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی اور سیاسی مسائل کی جڑیں سائکس پیکو معاہدے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ جدید استعماری قوتیں آج بھی اس خطے کو اپنے جیو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ شام میں سی ائی اے اور موساد کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی دہشت گرد تنظیمیں دندناتی پھر رہی ہیں اور معصوم عوام کا قتل عام کر رہی ہیں۔

دوسری جانب فلسطین میں صہیونی دہشت گردی نے خون کا بازار گرم کر رکھا ہے اور اب تک لاکھوں فلسطینی نوجوان، بوڑھے، اور خواتین اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر چکے ہیں۔

اختتامی گفتگو

سایکس پیکو نہ صرف ایک تاریخی سازش تھی بلکہ اس نے عالمی طاقتوں کی مفاد پرستی، نوآبادیاتی عزائم، اور انسانی جذبات کی بے قدری کو آشکار کیا۔ اس معاہدے کے اثرات آج بھی دنیا کے سب سے حساس خطے کی صورتِ حال پر غالب ہیں۔

معاہدہ سائکس پیکو ایک ایسا خفیہ معاہدہ اور ایک ایسی خفیہ سازش تھی جو اآج بھی تر و تازہ دکھائی دیتی ہے جس کے اثرات اآج بھی روز بروز اس خطے پہ اسی شد و مد کے ساتھ مرتب ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس سازش کے ایک سو سے زائد سال گزرنے کے بعد بھی مغربی استعماری قوتیں اس خطے کو اپنے جبر اور ظلم کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور اس خطے کے اکثر حکمرانوں کو ان استعماری قوتوں نے اپنی کمزور کٹھپتلیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

 دیکھنا یہ ہے کہ کب اس خطے میں استعمار مخالف حقیقی مقاومت پیدا ہوتی ہے اور اس خطے کو اس قدیم سازشی منصوبے سے آزادی دلا کر اس کو استحکام اور استقرار فراہم کرتی ہے۔