نہر سویس: ایک عظيم مصنوعی آبی گزرگاہ کا تعارف

نہر سویس مصر میں واقع ایک مصنوعی آبی گزرگاہ ہے جو بحیرہ متوسط کو بحر سرخ سے جوڑنے کا کام کرتی ہے اور دو عظیم بر اعظموں – ایشیا اور افریقہ – کو ایک دوسرے سے کاٹنے کا کردار ادا کرتی ہے اگر اور تفصیل سے دیکھا جاۓ تو یہ مصنوعی آبی گزرگاہ صحرائے سینا کو مصر سے جدا کرتی ہے۔  یہ 193.30 کیلومیٹر طویل کینال یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک کلیدی تجارتی گزرگاہ شمار کی جاتی ہے۔

نہر سویس اور فرانسیسی ڈبلومیٹ فردینان دو لیسبس

1858 میں، مشہور زمانہ فرانسیسی ڈبلومیٹ فردینان دو لیسبس نے سویس کینال کمپنی کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین نہر سویس کی تعمیر کرنا تھا۔ سویس کینال کی تعمیر کا کام 1859 سے لیکر 1869 تک جاری رہا۔ آخر کار 17 نومبر 1869 میں اس مصنوعی نہر کا رسمی طور پر افتتاح ہوا۔  

یہ مصنوعی نہر جہازوں کو شمالی اٹلانٹک سمندر اور شمالی بحر ہند کے درمیان راستہ فراہم کرتی ہے جو بحیرہ روم اور بحر احمر سے ہوتے ہوۓ گزرتا ہے اور اس وجہ سے جہازوں کو جنوبی اٹلانٹک سمندر اور جنوبی بحر ہند سے گزرنا نہیں پڑتا اور نتیجتاً بحر عرب سے شہر لندن کا راستہ تقریباً 8900 کلومیٹر کم ہو جاتا ہے۔ ںہر سویس پورٹ سعید کے شمالی ٹرمنل سے لے کر سویس شہر میں موجود پورٹ توفیق کے جنوبی ٹرمنل تک پھیلی ہوئی ہے۔

نہر سویس کی افتتاحي تقريب

نہر سویس کی افتتاح نومبر 1869 میں فرانسیسی تسلط کے تحت ہوئی ۔ افتتاحی تقریبات پورٹ سعید میں ہوئیں۔ اور بین الاقوامی شاہی مہمانان کی آمد شروع ہو گئ؛ آسٹریا کی شہنشاہ فرانز جوزف اول، فرانسیسی مہارانی یوگینی، پروشیا کے ولی عہد اور دوسرے دنیا پھر کے شاہی گھرانے اس تقریب میں شامل ہوۓ۔ 

نہر سویس اور عالمى تجارت

اس کرشمائ مصنوعی نہر سویس نے وجود میں آتے دنیا کی تجارت پر اپنا جادو چلانا شروع کردیا ۔ اور عالمی تجارت پر اسکے فوری اثرات مرتب ہونا شروع ہو گۓ۔ ایک طرف تو اسکے متعدد مثبت اور مفید نتائج سامنے آئے تو وہیں دوسری طرف خونی اور گھناؤنے یورپی استعمار نے اس کینال کو اپنے ظالمانہ نوآبادیاتی منصوبون کے خاطر اپنا جدید آلہ کار بھی بنا لیا جس کا سب سے بڑا ثبوت افریقہ میں یوروپی استعماری کاروائیوں میں تیزی اور پھیلاؤ۔ 

نہر سویس اور مغربي استعمار

دوسری جانب 1873 میں برطانیہ عظمیٰ کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑا اسکی وجہ یہ تھی کہ سویز کینال کی تعمیر سے قبل مشرق بعید سے آنے والا ساز وسامان مال بردار جہازوں میں لد کر بورے افریقی بر اعظم کا چکر کاٹ کے آتا تھا اور برطانوی مالخانے اور گوداموں میں جمع کیا جاتا تھا۔

نہر سویس اور مغربي شراكت

سن 1875 میں مصر کا مملوک حکمراں اسماعیل پاشا اپنے بینکی قرضے نہ ادا کرنے کی وجہ سے سویز کینال کا 44 فیصد حصہ -جسکی لاگت 19.2 ملین ڈالر تھی- کو حکومت انگلستان کے ہاتھوں پیچنے کو مجبور ہو گیا گر چہ فرانسیسی حصہ دار ابھی بھی اکثریت میں تھے۔ 1882 میں برطانیہ نے مصر کا مکمل تسلط اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 

بحر روم کے گرد بسنے والے یوروپی ممالک نے بطور خاص سویس کینال سے اقتصادی فائیدہ حاصل کیا کیونکہ اب انکے پاس شمالی اور مغربی یورپ کے ممالک کے مقابلے میں زیادہ تیز رابطہ ہے۔ 1888 میں ہونے والے استانبول کنونشن میں یہ طے پایا گیا کہ سویس کینال ایک غیر جانبدار خطہ ہے جو برطانیہ کی حفاظت میں رہےگا ۔

نہر سویس اور برطانیہ

 1936 میں برطانیہ اور مصر کے ما بین ہونے والے ایک اور معاہدہ کے تحت سویس کینال کا کنٹرول برطانیہ کے پاس باقی رہا یہاں تک کہ جنگ عظیم دوم سر پہ آ پہنچی اور جرمنی اور اٹلی نے ملکر اس پے مسلسل جد و جہد شروع کی لیکن ایک بار پھر سے برطانیہ اس په قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہا۔

نہر سویس كي آزادي كي جد و جهد

 1951 میں مصر نے برطانیہ کے ساتھ کیا گیا 1936 کا معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ اور 1954 میں برطانیہ عارضی طورپر پر سویس کینال سے اپنی فوج ہٹانے پہ راضی ہو گیا۔ سن 1956 میں مصری صدر جمال عبد الناصر نے سویس کینال کو نیشنلائز (حکومت مصر کی ملکیت میں لینے کا فیصلہ) کرنے کا اعلان کر دیا۔ جسکے نتیجے میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے ایک ساتھ مل کر مصر پہ حملہ کر دیا۔ 

نہر سویس اور دوسری عرب-اسرائیل جنگ

اس جنگ کو مختلف نام دۓ گیۓ جیسے  دوسری عرب-اسرائیل جنگ، سویس بحران، سینائی جنگ اور اسی طرح سہ فریقی جارحیت۔ اس جنگ کے نتیجہ میں امریکہ اور سوویت یونین کو کھل کرسامنے آنا پڑا۔ بہت سے تاریخ دانوں کے مطابق اس جنگ نے جمال عبد الناصر کے وقار میں اضافے کا کام کیا اور برطانیہ کو بین الاقوامی سطح پر بے توقیری اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وہ تاریخی لمحہ تھا جسنے برطانیہ اور فرانس سے سوپر پاور ہونے کا تمغہ ہمیشہ کے لۓ چھین لیا۔