عثمانی-صفوی تعلقات: عہد وسطیٰ کی دو عظیم الشان قوتیں اور ان کے باہمی رشتے 

تعارف

تاریخ اسلام میں عثمانی اور صفوی سلطنتوں کے باہمی تعلقات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ رشتے نہ صرف سیاسی اور عسکری اعتبار سے بلکہ دینی، اقتصادی، تجارتی اور ثقافتی پہلوؤں سے بھی نہایت ہی غیر معمولی ہیں۔ دونوں بادشاہتوں کے مابین جاری رقابت اور کشمکش نے مشرق وسطیٰ، قفقاز اور اناطولیہ کے جغرافیائی و سیاسی نقشے کی سیاسی اور فکری ترسیم میں نہایت ہی کلیدی اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

جہاں ایک طرف عثمانیوں نے مسلک اہل سنّت کو اپنا حکومتی اور ریاستی مسلک قرار دیا اور اس کی پشت پناہی اور نشوونما میں حکومتی جبر سے لے تبلیغی کاوشوں تک بے انتہا سرمایہ خرچ کیا۔ وہیں دوسری جانب، صفویوں نے شیعہ اثنا عشری عقیدے و فکر کو اپنی سلطنت کے لیے موزوں و مناسب سمجھ کر اسے اپنا ریاستی مذہب بنانے کو ترجیح دی۔

اس مسلکی تفریق نے بھی ان عہد وسطیٰ کی دو عظیم اور پھلتی پھولتی سلطنتوں کے ما بین تفریق اور اختلاف کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔  اس زیر بحث مختصر مقالے میں، ہم عثمانی-صفوی تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیں گے، جس میں ان کے مابین ہونے والی جنگیں، معاہدے، سفارتی تعلقات و کاوشوں، اور ثقافتی اثرات پر روشنی ڈالی جائے گی۔


عثمانی اور صفوی سلطنتوں کا آغاز 

سلطنت عثمانیہ کی بنیاد سن 1299ء میں رکھی گئی، اور جلد ہی یہ چھوٹی سی ریاست ایک بڑی طاقت بن گئی جو تین بر اعظموں – ایشیا، یورپ اور افریقہ – میں پھیل گئی۔ دوسری جانب، صفوی سلطنت سن 1501ء میں شاہ اسماعیل اول نے کی قائدانہ صلاحیتیوں اور کوششوں کے بعد وجود میں آئ۔

عثمانی اور صفوی سلطنتوں میں نظریاتی اور مذہبی فرق

 illustrating Safavid-Ottoman relations in the Middle Ages

صفوی سلطنت نے شیعہ عقیدہ کو پسند کیا جبکہ عثمانیوں نے سنی عقیدے کو اپنا سرکاری مسلک بنایا۔ عثمانیوں نے نے اپنے اثر و رسوخ کے علاقوں میں سنی عقیدے و نظریات کی نشر واشاعت میں ممکنہ حد تک کوششیں کیں اور ساتھ ہی ساتھ میں شیعہ عقیدے کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے، جبکہ صفویوں نے اپنی حکومت کے قیام کے پہلے دن ہی سے عثمانی سلطنت کو ایک نہایت ہی طاقتور مد مقابل اور خطرناک قوت کے طور دیکھنا شروع کیا۔

پہلا عثمانی – صفوی ٹکراؤ: چالدران کی جنگ (1514)

عثمانی-صفوی کشمکش کا سب سے پہلا بڑا عسکری ٹکراؤ چالدران کی جنگ میں ہوا، جو 1514ء میں لڑی گئی۔ سلطان سلیم اول کی قیادت میں عثمانیوں نے صفویوں پر زبردست فتح حاصل کی۔ اس جنگ کے بعد، عثمانیوں نے مشرقی اناطولیہ پر قبضہ کر لیا جبکہ صفوی سلطنت کو اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑے۔ اس جنگ نے دونوں سلطنتوں کے درمیان طاقت کے توازن کو عثمانیوں کے حق میں لانے میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ۔

دوسری عثمانی – صفوی جنگ: تبریز پر قبضہ اور عثمانیوں کی پیش قدمی

چالدران کی فتح کے بعد، عثمانی فوج نے تبریز پر قبضہ کر لیا، لیکن زیادہ دیر تک وہاں اپنا قبضہ برقرار نہ رکھ سکی۔ صفویوں نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی کو اپنا ہتھیار بنایا، جس کی وجہ سے عثمانیوں کے لیے ایران کے داخلی علاقوں میں پیش قدمی بہت حد تک دشوار ہو گئی۔ مگر پھر بھی، عثمانیوں نے مشرقی اناطولیہ، آرمینیا اور عراق کے کچھ حصوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

عثمانی – صفوی تعلقات: سلیمان قانونی اور شاہ طہماسب کا عہد

سلطان سلیمان قانونی اور شاہ طہماسب بپنے وقت کے دو عظیم المرتبت شہنشاہ تھے مگر انکے درمیان بھی تعلقات کشیدہ رہے۔ عثمانیوں نے متعدد مرتبہ ایران پر حملے کیے لیکن صفویوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 1534ء میں عثمانیوں نے بغداد پر اپنا تسلط قائم کر لیا، جس سے صفویوں کو ایک بڑا جھٹکا لگا۔ اس کے نتیجے میں عراق عثمانی سلطنت کا حصہ بن گیا اور اثنا عشریہ اسلام کے مقامات مقدسہ بھی عثمانیوں کے زیر تسلط آگئے۔


عثمانی – صفوی تعلقات اور آماسیا معاہدہ (1555)

سن 1555 عیسوی میں عثمانیوں اور صفویوں کے درمیان آماسیا معاہدہ قرار پایا، جس کے تحت دونوں سلطنتوں نے اپنی سرحدوں کو تسلیم کیا اور ایک مختصر عرصے کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ دونوں طاقتوں کے درمیان پہلی رسمی سفارتی مفاہمت تھی۔

عثمانی – صفوی جنگیں (1578-1590)

سلطان مراد سوم کے دور میں عثمانیوں نے دوبارہ صفوی سلطنت پر حملے کیے۔ اس جنگ میں عثمانیوں نے قفقاز، آزربائیجان اور خراسان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ سن 1590 میں ایک اور معاہدے کے تحت صفوی سلطنت کو عثمانیوں کے یہ فتوحات تسلیم کرنے پڑے۔

شاہ عباس اول کی حکمت عملیاں اور عثمانیوں کے خلاف جوابی حملے

شاہ عباس اول (1588-1629) نے صفوی فوج کو جدید طرز پہ از سر نو منظم اور مسلح کیا اور صفویوں کی فوجی طاقت کو دوبارہ بحال کیا۔ انہوں نے سن 1603ء میں عثمانیوں کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کیں اور بغداد، آذربائیجان اور دیگر علاقے عثمانیوں سے چھین لۓ۔ مشرقی علاقوں میں یہ عثمانیوں کی سب سے بڑی شکست مانی جاتی ہے۔

 illustrating Safavid-Ottoman relations in the Middle Ages

عثمانی – صفوی تعلقات اور زوہاب معاہدہ (1639)

سن 1639 عیسوی میں زوہاب معاہدہ طے پایا گیا، جس نے عثمانی اور صفوی سلطنتوں کے درمیان حتمی سرحدوں کا تعین کرنے میں کلیدی رول ادا کیا۔ اس معاہدے کے بعد، عثمانیوں نے عراق اور مشرقی اناطولیہ کو برقرار رکھا، جبکہ ایران کو آذربائیجان اور قفقاز کے کچھ علاقوں پر دوبارہ قبضہ حاصل ہو گیا۔ یہ معاہدہ دونوں سلطنتوں کے درمیان طویل مدتی امن کا باعث بنا۔


عثمانی – صفوی تعلقات: ثقافت اور تجارت کا فروغ

اگرچہ دونوں سلطنتوں کے درمیان عسکری تصادم جاری و ساری رہا، لیکن ان کے درمیان ثقافتی اور تجارتی روابط بھی ہمیشہ دائم و قائم رہے۔ ایرانی قالین، مصوری، فن تعمیر، اور ادبیات عثمانی دربار میں بھی مقبول تھی۔ اسی طرح، عثمانی طرز حکومت، فوجی حکمت عملی، اور فنون لطیفہ صفوی سلطنت پر اثرانداز ہوئے۔ بغداد اور تبریز جیسے شہر دونوں سلطنتوں کے درمیان تجارتی اور علمی مراکز کا کردار ادا کرتے رہے۔

اختتام 

عثمانی اور صفوی تعلقات کی تاریخ تنازعات، جنگوں اور سفارتی معاہدوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کے مذہبی، سیاسی اور جغرافیائی اختلافات نے مشرق وسطیٰ کے نقشے کو تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ چالدران کی جنگ سے لے کر زوہاب معاہدے تک، دونوں سلطنتوں کے درمیان طاقت کا توازن بدلتا رہا۔ تاہم، ان کے درمیان ثقافتی اور تجارتی تعلقات نے ایک ایسا پل بھی قائم رکھا جس نے دونوں سلطنتوں کی شناخت کو متاثر کیا۔

آج بھی، عثمانی-صفوی تعلقات کا مطالعہ مشرق وسطیٰ کی سیاست، شیعہ-سنی تنازعے، اور بین الاقوامی طاقتوں کے کردار کو سمجھنے میں نہایت ہی اہم ہے۔ ان دو عظیم الشان سلطنتوں کے تعلقات ہمیں یہ سبق سکھانتے ہیں کہ طاقتور سلطنتیں نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارت کاری اور ثقافتی روابط کے میدان میں بھی اپنی پوزیشن مستحکم کر سکتی ہیں۔