
تعارف
سید فضل الحسن، جو اپنے قلمی نام حسرت موہانی سے مشہور ہیں، ایک بلند پایہ اردو شاعر، مجاہدِ آزادی، سیاستدان، اور صحافی تھے۔ وہ برطانوی سامراج کے خلاف برپا ہونے والی جدوجہد اور مقاومت میں پیش پیش رہے اور اس کے روح رواں سمجھے جاتے رہے۔
وہ “انقلاب زندہ باد” کا نعرہ بلند کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کی زندگی، شاعری، سیاست، اور اردو زبان و ادب کے لیے خدمات نے انہیں ایک منفرد مقام عطا کیا۔
حسرت موہانی کی ابتدائی زندگی اور تعلیم
حسرت موہانی 1875ء میں اتر پردیش کے ضلع اناؤ کے قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک عالم فاضل اور مذہب پسند گھرانے سے تھا، یہی وجہ تھی کہ اپ کو علم و ادب کی گہرائی اور فکر و دانائی کی وسعت برسے میں ملی تھی اور بچپن ہی سے اپ کو علم وہ ادب کے ماحول سے محبت وہ دلچسپی رہی۔
حسرت موہانی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرتے وقت ہی دورانِ تعلیم ہی شعر و ادب میں دلچسپی لینا شروع کر دیا تھا۔
حسرت موہانی کی ادبی خدمات
حسرت موہانی کا شمار اردو کے ان اہم شعرا میں ہوتا ہے جن کی شاعری کا بنیادی مقصد اور کلیدی موضوع عشق و محبت کے ساتھ ساتھ آزادی اور انقلاب بھی تھا۔ انکو غزل گوئی نے شعر و شاعری کی دنیا میں ایک منفرد اور مقبول مقام دلوایا اور ان کے کلام نے روایتی کلاسیکی طرز کو جدید رجحانات سے مربوط کر کے اردو شاعری کو ایک نہایت ہی حسین ادبی و شعری امتزاج کا تحفہ عطا کیا۔
حسرت موہانی اور ان کی شاعری کی خصوصیات
- رومانویت: حسرت کی غزلوں میں کلاسیکی عشق کی خوبصورت تصویر کشی ملتی ہے۔
- حب الوطنی: ان کی شاعری میں آزادی کی جدوجہد کا عکس نمایاں ہے۔
- صوفیانہ طرز: ان کے کلام میں صوفیانہ خیالات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔
- عوامی مسائل: ان کی شاعری میں عام آدمی کے مسائل کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔
ان کا یہ مشہور شعر آج بھی ان کی شاعری اور ان کے وقت کی سماجی و سیاسی صورتحال کی نہایت ہی سلاست و جامعیت کے ساتھ عکاسی کرتا ہے :
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ کیا آپ کی شاعری ایک گہرے جذباتی و احساساتی انسانی اظہار کی قوی ترین عکاس تھی لیکن اس سے بھی بڑھ کر آپ کی شاعری اپنے الفاظ و کلمات اور تعبیرات کی شکل میں ایک انقلابی تحریک کا فریضہ ادا کر رہی تھی جو ہندوستان کو انگریزوں کے استعماری جبر و تشدد سے آزاد کرانا چاہتی تھی۔
حسرت موہانی کی صحافتی اور علمی خدمات
حسرت موہانی صحافت کے میدان کے بھی شہسوار تسلیم کیے جاتے ہیں، اس میدان میں ان کی خدمات و کارنامے انگنت اور بے شمار ہیں۔ انہوں نے “اردوئے معلیٰ” کے نام کیوں سے بولا ہے ایسا انقلاب رسالہ شائع کیا جس نے برطانوی حکومت کی پالیسیوں اور استعماری جبر تشدد کو کھل کر تنقید کا نشانہ بنایا۔
اس بے باک، جرات مند، اور حق پرست صحافت کی پاداش میں حسرت موہانی جیسے انقلاب کے جیالے کو متعدد مرتبہ جیل بھیج دیا گیا، لیکن انہوں نے اپنے مشن اور اپنے نصب العین سے نہ کبھی منہ پھیرا نہ کبھی غفلت کا مظاہرہ کیا۔
حسرت موہانی کی سیاسی خدمات
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حسرت موہانی برصغیر کی تحریک آزادی متوالو اور جیالوں کی فہرست میں ہمیشہ پہلی صف میں نظر ائے، لیکن جس حقیقت نے ان کے سیاسی قد میں اضافہ کیا وہ یہ تھا کہ وہ ہندوستان کے ان معدودے چند رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے سب سے پہلے مکمل آزادی (Complete Independence) کا نعرہ بلند کیا۔ ان کا سیاسی سفر درج ذیل نکات کی روشنی میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے:
- انقلاب پسند: وہ انقلابی نظریات کے حامل تھے اور عدم تعاون کی پالیسی کے حامی تھے۔
- خودمختاری کے داعی: وہ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں میں سرگرم رہے لیکن ہمیشہ ہندوستان کی مکمل خودمختاری پر زور دیتے رہے۔
- جیل کی صعوبتیں: آزادی کی جدوجہد میں انہوں نے متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
- اشتراکیت کے حامی: وہ مزدوروں کے حقوق اور سوشلسٹ نظریات کے حامی تھے۔
حسرت موہانی اور اردو زبان
حسرت موہانی کو اردو زبان سے گہری محبت اور والہانہ عشق تھا۔ وہ اردو کی ترقی وہ ترویج کے پرزور حامی تھے اور اسے ایک مضبوط علمی و سائنسی زبان بنانے کے خواہشمند تھے۔ اس میدان میں ان کی خدمات درج ذیل ہیں:
- اردو شاعری پہ سماجی اور انقلابی رنگ چڑھانا۔
- اپنی تحریروں میں سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کرنا تاکہ اردو ایک عام فہم زبان کی حیثیت سے منظر عام پ آسکے۔۔
- اردوئے معلیٰ کے ذریعے ادبی حلقوں میں نئی روح پھونکے کی جدوجہد کرنا۔
- غزل کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا اور اسے نئے موضوعات سے ہم آہنگ کیا۔

اختتامی گفتگو
حسرت موہانی نہ صرف ایک عظیم شاعر بلکہ ایک انقلابی سیاستدان، صحافی، اور اردو زبان کے سچے خدمت گزار بھی تھے۔ ان کی شاعری، صحافت، اور سیاست کا بنیادی فلسفہ انسانی آزادی، مساوات اور سماجی انصاف کہ محور کے ارد گرد گھومتا تھا۔ انہوں نے جو خدمات انجام دیں، وہ ہمیشہ اردو ادب اور برصغیر کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھی جائیں گے۔
حسرت موہانی کی حیات و خدمات کا اجمالی جائزہ ہمیں اس حقیقت سے روبرو کراتا ہے کہ ان کی شخصیت ہمہ جہت تھی، ان کی فکر وسیع، ان کی بصیرت گہری، ان کی سیاست جرات مند، اور ان کی صحافت حق پرست تھی۔ یہی وہ اوصاف و کمالات تھے جنہوں نے حسرت موہانی کو ہندوستانی سیاست میں اور انگریز مخالف انقلابی تحریک میں ایک منفرد اور باوقار مقام عطا کیا۔ ان کی شاعری میں جہاں ایک طرف محبت و الفت کی جلوہ گری ہے، وہیں دوسری طرف حریت، انقلاب اور سماجی شعور کی رمق بھی نمایاں ہے۔
یقیناً، حسرت موہانی کا فکر و فلسفہ آج بھی ہمارے لیے مینارۂ نور ہے۔ ان کی شاعری، صحافت اور جدوجہد ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ سچائی اور اصولوں پر مبنی زندگی ہی حقیقی عظمت کی حامل ہوتی ہے۔ ان کی میراث ہمارے لیے ایک ایسی درخشاں قندیل ہے جو ہمیں حق پرستی، حریتِ فکر اور ادب و ثقافت کی خدمت کی راہ دکھاتی ہے۔ ان کا نام تاریخ میں ہمیشہ ایک جری، مخلص اور صاحبِ بصیرت انسان کے طور پر زندہ و جاوید رہے گا۔